گہرا نارنجی جوڑا سانولی دلہن پر عجیب بہار دکھا رہا تھا ۔ دلہن کی گردن شرم سے کم اورنقلی سونے کے بھاری ،پیلے رنگ کے زیورات سے زیادہ جھکی ہوئی تھی ۔ بڑا سارا ٹیکہ ،نتھ،جھومر،کم عمر چہرہ زیورات سے اتنا ڈھک گیا تھا کہ گھونگھٹ نکالنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مگر جتنا بھی چہرہ نظر آرہا تھا،وہ خوشی سے جگمگا رہا تھا ۔ بمشکل سترہ ،اٹھارہ سال کی گیتا کماری آج اپنے سسرال رخصت ہو رہی تھی ۔
دریا کے کنارے دولہا والوں کی کشتی ،سجی سجائی بلکل تیار کھڑی تھی جس میں بیٹھ کر گیتا کو اپنے سسرال وداع ہونا تھا جو کہ دریا پار تھا ۔ دریا کے پار کئی گاءوں تھے ۔ جہاں کی لڑکیاں اکثر بیاہ کر یہاں دھرم پور آتی تھیں ۔ اور کبھی کبھی دھرم پور کی لڑکیاں دوسرے کسی گاءوں رخصت ہو جایا کرتی تھیں ۔ دوسرے گاءوں کی دلہنوں کو دھرم پورآتے ہوئے کبھی کوئی گھٹنا پیش نہ آتی تھی مگر ۔ ۔ ۔ جب کبھی کسی دلہن کو دریا پار رخصت ہونا پڑتا تھا توبس ۔ ۔ سارے گاءوں کی جان مانو حلق میں اٹکی ہوتی تھی ۔
آج بھی گیتا کماری کے ماتا پتا کی سانسیں سینے میں گھٹی جا رہی تھیں ۔ گیتا کی ماں کو گیتا کے بیاہ کی خوشی تو بہت تھی مگر ایک خوف نے اس کی خوشی کو غارت کر رکھا تھا ۔ ’’نہ جانے کیا ہو گا ۔ ۔ ؟‘‘بار بار ایک سوال اس کے دماغ میں ڈنک مار رہا تھا ۔
جیسے ہی دلہا دلہن کے پھیرے ختم ہوئے اور پجاری نے پوجا ختم کی رخصتی کا شور اٹھ گیا ۔ دولہا کے ماں باپ نے ان سے اجازت چاہی ۔
دولہا دلہن ان کے ماں باپ اور چند رشتہ دار مندر کی سیڑھیاں اتر کرکشتی میں جا کر بیٹھ گئے ۔ مندر خالی ہو چکا تھا ۔ سوائے گیتا کی ماں کے وہاں اور کوئی نہیں تھا ۔ گیتا کی ماں نے ایک بار پھر بھگوان کی مورتی کو التجائی نظروں سے دیکھا’’میری گیتا کی رکھشا کرنا‘‘ وہ بڑ بڑائی ۔
Also Read:
جب وہ مندر کی سیڑھیاں اتر رہی تھی تو اس کومحسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے قدموں میں جان نہیں ہے ۔ وہ ہوا میں لہرا رہی ہے ۔ بڑی مشکل سے وہ بھی گیتا کے باپ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی جو اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بیٹی کو وداع کر رہا تھا ۔
’’چلو رے ڈولی اٹھاءو کہار ۔ ۔ پیا ملن کی رت آئی ۔ ۔ ‘‘گیتا کی سہیلیاں وداعی گیت گانے لگیں ۔
کہاروں نے درخت سے باندھا ہوارسّا کھول کر کشتی کو پانی میں ڈال دیا ۔ کشتی آہستہ آہستہ ڈولتی آگے بڑھنے لگی ۔
گاءوں والے آنکھیں پھاڑے ،سانس تقریباً روکے،منہ کھولے کشتی کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ رہے تھے ۔
کشتی مزید آگے بڑھی ۔ ۔ دریا گہرا ہونا شروع ہو گیا تھا ۔ دریا ۔ ۔ کوئی گہرا سا گہرا تھا،سمندر کی برابری کرتا ہوا ۔ ۔ یہ بڑا پاٹ ۔ ۔ دوسرا کنارہ دکھائی نہ دے ۔ ۔
کہتے تھے کہ دریا کے بیچوں بیچ ایک بھنور موجود ہے ۔ بھیانک بھنور ۔ ۔ ۔ برمودا ٹرائنگل کی طرح ۔ فرق یہ تھا کہ برمودا ٹرائنگل میں غائب ہونے والوں کا کبھی سراغ نہیں ملتا ،مگربھنور میں ڈوبنے والی کی لاش دوسرے دن کنارے پر پڑی مل جاتی تھی ۔ ہاں ۔ ۔ ایک بہت بڑا فرق اور بھی تھا ۔ ۔ وہ یہ کہ بھنور میں صرف وہ کشتی الٹتی تھی جو دھرم پور سے روانہ ہوتی تھی اور جس میں کوئی دلہن رخصت ہورہی ہوتی تھی ۔
آہستہ آہستہ کشتی تیرتے ہوئے آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ کوئی حادثہ رونما نہ ہوا ۔ کوئی چیخ و پکار کی آوازیں نہ گونجیں ۔
گاءوں والوں کی سانسیں آہستہ آہستہ بحال ہونے لگیں ۔ وہ بھگوان کا شکر کرتے اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے ۔ گیتا کی ماں نے دوبارہ مندر میں جا کرماتھا ٹیکا ۔
اور سب سے الگ تھلگ،دور بیٹھے ۔ ۔ ۔ کانپتے ہوئے ۔ ۔ پریم چند نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے دریا کی طرف دیکھا ۔ ۔ ’’شکر ہے‘‘ اس نے گہری سانس لی ۔ ۔ ’’تیرا شکر ہے ۔ ۔ ۔ ‘‘
کسی بھی مذہب کے لوگ ہوں ۔ ۔ کسی کی بھی عبادت کرتے ہوں ۔ ۔ خدا کاشکر ادا کرتے ہوئے ارادی یا غیر ارادی طور پر ہمیشہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ۔ نہ جانے پریم چند شکرکرتے ہوئے دریا کو کیوں دیکھتا تھا؟
Also Read:
گیتا کے بیاہ کے یہ آخری خوفناک،جان نکال لینے والے گھنٹے،دھرم پور گاءوں والوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی ۔
کوئی پچیس سالوں سے یہ بھیانک سلسلہ چلا آرہا تھا ۔ دوسرے گاءوں سے بیاہ کر لائی گئی دلہنیں بخیر و عافیت اپنے سسرال پہنچ جاتیں اور
happily married
کی تصویر بن کر اپنے گھروں میں زندگی گذارتیں ۔
مگر جب بھی کوئی دھرم پور کی لڑکی شادی ہو کر دوسرے گاءوں رخصت ہوتی تو اکثر دریا پار نہیں بلکہ دنیا کے پار پہنچ جاتی ۔ عین دریا کے بیچوں بیچ کشتی بھنور میں پھنس جاتی ۔ ۔ بری طرح چکرانے لگتی ۔ ۔ اور آخر کار الٹ جاتی ۔
گاءوں دریا کنارے واقع تھا ۔ گاءوں کے مردوں کا ،پانی سے راز و نیاز ان کے بچپن ہی سے شروع ہو جاتا تھا ۔ گھنٹوں تیراکی کرتے ہوئے لہروں سے لڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ۔ مگر جو بھی کبھی بھنور میں پھنس چکا تھا ان کا بیان ہوتا تھا کہ وہ بھنور نہیں ہے بلکہ دریا میں موجود اندھا کنواں ہے ۔ ۔ موت کا کنواں ۔ ۔
پھربھی تیراکی کے فن میں بچپن سے ماہر ہونے کی وجہ سے سب ہی لوگ لہروں اور موت کو شکست دے ڈالتے اور بچ جاتے ۔ یہاں تک کہ کبھی کسی دولہا کو بھی خراش تک نہیں آتی تھی،مگر ۔ ۔ ۔ دلہن ۔ ۔ ۔ سرخ لباس میں ملبوس ۔ ۔ اپنے ہزاروں ارمانوں سمیت میلوں گہرے پانی میں ڈوب جاتی ۔
پچیس سال پہلے جب یہ خونی سلسلہ شروع ہوا تھا تو کئی سالوں تک تو گاءوں والوں کو واقعات کی سنگینی کا اندازہ نہ ہو سکا اور ان وہ دلہنوں کے ڈوب جانے کو محض اتفاق ہی سمجھتے رہے ۔ مگر جب سال دو سال میں کوئی ایک دلہن ضرور جان سے جانے لگی تو سب نے برسوں پہلے کی کڑیاں جوڑنا شروع کر دیں اور نتیجہ نکال لیا کہ یہ حادثے بے وجہ نہیں ہیں ۔ ۔
دریا بھینٹ مانگتا ہے اور صرف دھرم پور کی کسی لڑکی کی بھینٹ مانگتا ہے ۔ دلہن بنی ہوئی لڑکی کی
پریم چند نے اپنی چارپائی پر آہستہ سے کروٹ بدلی ۔ ۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔ ۔ حسبِ معمول ۔ ۔
ویسے تو نیند سے اس کی دشمنی برسوں پرانی تھی ۔ برسوں سے وہ صرف چند گھنٹے ہی سو پاتا تھا ۔ سارا دن دریا میں کشتی چلاتے،مچھلیاں پکڑتے اس کا جوڑ جوڑ دہائی دینے لگتا تھا ۔ مگر بستر پر لیٹتے ہی نیند بھاگ جاتی تھی ۔ کسی شریر محبوبہ کی طرح ۔ ۔
محبوبہ ۔ ۔ ۔ پریم چند کے چہرے سے ایک آنچل ٹکرایا ۔ ۔ ۔ ایک برسوں کی جانی پہچانی مہک ہر طرف پھیل گئی ۔ ۔ پریم کی بند ہوتی آنکھیں ایک دم کھل گئیں ۔ ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک وجود سائے کی طرح لہرانے لگا ۔ لمبے لمبے بال ۔ ۔ چمکتا چہرہ ۔ ۔ موتیوں جیسے دانت چمکنے لگے ۔ ۔ ایک کھنکتی ہوئی ہنسی اس کے کانوں میں جلترنگ بجانے لگی ۔ ۔
’’دیپا ۔ ‘‘ پریم کے سوکھے لبوں سے آہ کی طرح ایک نام نکلا ۔ ۔ ’’دیپا‘‘ اس کی آنکھیں آنسوءوں سے بھر گئیں ۔
دوسرے دن گیتا کماری کے سسرال سے خیریت کی اطلاع آ گئی ۔ گیتا کے گھر والوں نے سکون کا سانس لیا ۔ اب کی بار گیتا کی ماں نے گھر پر ہی بھگوان کا شکر ادا کر دیا ۔ بیٹی اپنے گھر جا کر بس چکی تھی اب کون مندر کی دو منزلہ سیڑھیاں چڑھنے کا کشٹ اٹھائے؟اور بھئی بھگوان تو ہر جگہ موجود ہے ۔ ’’ہے کہ نہیں ؟‘‘
باقی جوان لڑکیوں کی مائیں ایک مرتبہ پھر اپنے دل مضبوط کرنے لگیں اور دریا پار سے ان کے لئے آئے ہوئے رشتوں پر غور کرنے لگیں ۔
گاءوں کے لوگ بھی بے چارے کیا کرتے؟لڑکیوں کی بہتات تھی ۔ ۔ کبھی کبھی تو شک ہونے لگتا تھا کہ شاید دریا میں جتنی مچھلیاں ہیں گاءوں کے گھروں میں اتنی ہی لڑکیاں بڑی ہو رہی ہیں ۔
اب نہ چاہتے ہوئے بھی جن کے جوڑ کے لڑکے گاءوں میں نہ ہوتے ان کا رشتہ دریا کے پار طے کرنا پڑ جاتا تھا ۔ اور پھر ان دیکھے خوف کا سلسلہ شادی کے دن تک چلتا رہتا تھا ۔
ہاں ہمیشہ ہی ہر ناءو نہیں ڈوب جاتی تھی بس سال دو سال میں ایک مرتبہ ضرور کوئی بد قسمت دلہن دریا کی گہرائی ناپتے ہوئے اوپر آکاش پر پہنچ جاتی تھی ۔ ۔
کون دریا پار اترے گا تو کون دنیا کے پار چلا جائے گا ۔ ۔ کوئی نہیں جانتا تھا
پریم چند کی بیٹیاں بھی شادی کی عمر کو پہنچ گئیں تھیں ۔ بڑی والی تو اکیس کی ہو رہی تھی ۔ اس کی بیوی بملا ان کی شادی کے لئے ہلکان ہوئی جا رہی تھی ۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی لڑکیوں کے لئے رشتوں کی کمی ہو ۔ ہر چوتھے دن کوئی پیغام کسی بیٹی کے لئے آیا ہوتا تھا ۔ ۔ ہاں مگر ہوتا ہمیشہ دریا پار سے تھا ۔
ویسے تو پریم چند نے بملا سے کبھی کسی بات پر
argue
نہیں کیا تھا ۔ جب ان کی پہلی بیٹی پیدا ہوئی تھی تو نام رکھنے کے سمے پریم کے دل کی گہرائی سے ایک آواز نکلی تھی ’’دیپا‘‘ ۔ ۔ اس کا نام دیپا رکھیں گے ۔ پریم نے التجا کی تھی ۔
مگر بملا نے تو فوراً ہی ریجیکٹ کر دیا تھا ۔ ہونہہ !’’دیپا” بھی کوئی نام ہے بھلا ۔ ۔ اتنا پرانا ۔ ۔ میرا بڑی چاچی کا نام بھی دیپاتھا ۔ اس نے چڑ کر کہا تھا ۔
بملا نے توشادی کے فوراً بعد ہی اپنے ہونے والے بچوں کے نام سوچ لئے تھے ۔
جب ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی وہ پریم چند کے ساتھ شہر گھومنے گئی تھی ۔ اور اپنی زندگی کی پہلی فلم اس نے سینما میں دیکھی تھی ۔ سینما کی بڑی ساری اسکرین پر موجود ہنستے مسکراتے ۔ گنگناتے ہیرو پر بملا کو اس قدر شدید
crush
ہوا تھا کہ وہ تھوڑی کو دیر کو برابر بیٹھے اپنے نئے نویلے شوہر کو بھول گئی تھی ۔ اور اس نے اپنے دل میں پکا ارادہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام ’’دیو آنند‘‘ رکھے گی ۔
گھر واپس لوٹ کر بہت دنوں تک اس کے دماغ پر فلم سوار رہی تھی ۔ کتنا شوق تھا بملا کو کہ کبھی تو پریم چند اس کی ساڑھی کا آنچل پکڑ کر گنگنائے ’’ارے یار میری تم بھی ہو گزب‘‘ یا پھرکبھی بملا اس سے روٹھے تو اس کے آگے پیچھے گاتا پھرے
“مانا جناب نے پکارا نہیں”
مگر پریم چند کی زندگی میں رومانس نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی ۔ کم از کم بملا کے لئے نہیں تھی ۔
بملا خود بھی گاءوں میں ہی پلی بڑھی تھی مگر اس کو گاءوں والوں کے طور طریقے بہت اولڈ فیشن لگتے تھے ۔ اور ان کے نام اف ۔ ۔ عجیب و غریب ناموں کی بہتات تھی ۔ خود بملا کے بھائی نتھو لال اور تجوری لال اور اس کی سہیلیاں کاکی اور شانو ۔
خیر بملا کو بھگوان نے پہلی بیٹی دے دی تو اس نے ’’نوتن ‘‘ نام رکھ دیا ۔
پریم چند نے اس وقت تو دل پر پتھر رکھ لیا تھا مگر ۔ ۔ جب بھی بملا نوتن کے لئے آئے کسی دریا پار والے لڑکے کے رشتے کا ذکر کرتی تو وہ سختی سے انکار کر دیتا ۔ ۔ ’’نہیں ۔ ۔ دریا پار نہیں ۔ ۔ ‘‘
پچیس سال کونسا اتنا بڑا سمے ہوتا ہے ۔ ۔ ابھی کل کی ہی تو بات لگتی ہے ۔ ۔ بس فرق صرف یہ ہے پچاس سال کا پریم اس وقت پچیس سال کا تھا ۔ بلکل جوان ،خوش شکل ۔ ۔ پریم کا جسم پچاس کی عمر کو ضرور پہنچ گیا ہے مگر اس کا دل پچیس سال پہلے ہی مر گیا تھا ۔ پچیس سال پہلے اس کا دل امنگوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ۔ دھڑکتا تھا ۔ ۔ اور جب دیپا اس کے سامنے آجاتی تھی تو شدت سے دھڑکنے لگتا تھا ۔ ۔ اتنا تیز کہ دھڑکن پریم کو اپنے کانوں میں محسوس ہونے لگتی تھی ۔ دیپا گاءوں کی سب سے سندر لڑکی تھی ۔ یہ صرف پریم کا خیال ہی نہیں تھا ۔ ہر روز کسی نہ کسی لڑکے کی ماں دیپا کے گھرسوالی بن کر آئی ہوتی تھی ۔ مگر دیپا کے باپ کو تو کسی شہزادے کی تلاش تھی ۔
پریم پر دگنی مصیبت آ جاتی تھی ۔ ایک تو دیپا کے لئے آنے والا رشتہ اوپر سے لوگ دریا پارجانے کے لئے اسی کی ناءو کرائے پر منگوا لیتے تھے ۔
پریم مچھیرے کا بیٹا تھا ۔ کشتی چلانا ،مچھلیاں پکڑنا اس کا نسلوں سے پیشہ چلا آرہا تھا ۔ دیپا گاءوں کے سب سے بڑے گھر کی بیٹی تھی ۔ مگر محبت نے کب امیری غریبی دیکھی ہے ۔ ۔
ویسے کہنے کی بات ہے کہ ’’محبت اندھی ہوتی ہے ‘‘ جھوٹ ۔ ۔ کب ہوتی ہے محبت اندھی؟ انتہائی چالاک اور مکّار ہوتی ہے محبت ۔ ۔ ہمیشہ حسین چہرے کا انتخاب کرتی ہے ۔ کوئی ایک مثال بتا دے کہ دو بہنوں یا پھر دو سہیلیوں میں سے کسی نے کم شکل والی کا انتخاب کیا ہو ۔ ۔ یا کسی لڑکی نے دو دوستوں میں سے جان بوجھ کر بے چارے غریب لڑکے کو چُن لیا ہو ۔ ۔
پریم چند نے بھی تو دیپا کے حسن کے آگے گھٹنے ٹیک دئے تھے ورنہ اس کی بچپن کی منگ بملا میں کون سی برائی تھی؟
بے چارہ پریم یہ جانتے ہوئے بھی کی دیپا اس کی دسترس سے جنموں دور ہے اس کو دل دے بیٹھا تھا ۔
پریم کی محبت بے شک اندھی نہیں تھی مگر سچی تھی ۔ ۔ ۔ بلکل سچی ۔ ۔
گیتا کی شادی کے بعد چند مہینے گذرے اور مزید دو دلہنیں خیر سے سسرال سدھار گئیں ۔ گاءوں والوں نے سکون کا سانس لینا اور رشتوں پر پھر سے غور کرنا شروع کر دیا ۔
مندر کے پجاری صاحب نے کئی مرتبہ لوگوں کے ہجوم میں کریڈٹ لے لینا چاہا کہ ان کی پوجا پاٹھ اور دریا میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر عمل کرنے کا نتیجہ ہے کہ
curse
اب ختم ہو چکا ہے اور دریا نے بھینٹ مانگنا چھوڑ دیا ہے ۔
بملا نے بھی پریم چند پر دوبارہ زور دینا شروع کر دیا کہ وہ اب کسی رشتے پر ہامی بھر کہ نوتن کو اس کے گھر کا کر دے کہ ایک دن ۔ ۔
پھر ایک کشتی دریا میں الٹ گئی اور چند منٹوں کی دلہن پانی میں ڈوب گئی ۔ دلہن بھی کوئی اور نہیں بملا کی بچپن کی سہیلی کی بیٹی انجو ۔ ۔
بملا اور نوتن پر سکتہ طاری تھا ۔ پورے گاءوں میں ماتم کا سماں تھا ۔ ۔ انجو کی ماں دیواروں سے سر ٹکرا کر رو رہی تھی ۔
آدھی رات گذر گئی تو شور کی آوازیں تھم گئیں ۔ انجو کے گھر سے سنائی دینے والی چیخیں بھی بالآخررک گئی تھیں ۔ گاءوں والے بے چارے، غم کے مارے ،تھکے ہارے شاید سو گئے تھے یا بے سدھ ہو گئے تھے ۔
کئی گھنٹوں سے چھت کو گھورتے پریم کے چہرے سے ایک آنچل ٹکرایا ۔ ۔ سفید آنچل ۔ ۔ پچیس برسوں سے اس آنچل کا ایک ہی رنگ تھا ۔ ۔ سفید ۔ ۔ پریم آہستہ سے اپنے گھر سے نکل آیا ۔ ۔ چاند کی آخری تاریخیں تھیں ۔ ہر طرف نیم اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ فضا بے حد اداس اور پراسرار تھی ۔ اتنا سناٹا تھا کہ پریم کے پیروں تلے آ جانے والے سوکھے پتوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی ۔ ۔ ڈراءونی آواز ۔ ۔ جیسے کوئی کراہ رہا ہو ۔ ۔ ۔ اس نے اپنی دکھی نگاہیں دریا کی طرف اٹھائیں ۔ ۔ اس وقت ۔ ۔ اندھیرے میں دریا سیاہ لگ رہا تھا ۔ ۔ آج پھرایک بھینٹ لینے کے بعد اس کی قاتل لہریں اتنے سکون سے بہہ رہی تھیں جیسے کسی کو شدید بھوک میں کھانا کھا کر گہری نیند آجائے ۔
پریم کے گھر سے دریا چند منٹ کے فاصلے پر تھا ۔ وہ آنکھیں بند کر کے وہاں پہنچ سکتا تھا ۔ مگر اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے میلوں کا سفر طے کیا ہو ۔ ۔ ننگے پیر ۔ ۔
وہ تھکن سے بے حال گھٹنوں کے بل گر گیا ۔ اچانک اس پر نیند حملہ آور ہو گئی ۔ ۔ ایک بے ہوشی ۔ ۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔ ۔ مگر کہیں قریب سے ایک ہنسی کی آواز جلترنگ بجانے لگی ۔ ۔ ایک جانی پہچانی ہنسی ۔ ۔ ۔
’’دیپا ۔ ۔ ‘‘پریم نے بے ساختہ آنکھیں کھول دیں ۔ ۔ وہی تھی ۔ ۔
پریم پچاس کا ہو چلا تھا مگر وہ تو بلکل ویسی کی ویسی تھی ۔ جوان ،حسین ۔ ۔ چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی ہنس رہی تھی ۔
پریم کو اس کی ایک ایک ادا ازبر تھی ۔ اس کا کھلی زلفیں جھٹکنا ،اترا کر چلنا،پھر مڑ مڑ کر مسکرانا ۔ ۔
مسکرا تو وہ آج بھی رہی تھی ۔ ۔ مگر اس کی آنکھیں ۔ ۔ قہر برسا رہی تھیں ۔ زہر برسا رہی تھیں ۔ ۔ وہ نفرت سے پریم کو گھور رہی تھی ۔ ۔
دیپا ‘‘ ۔ ۔ ۔ پریم کے منہ سے نکلا ۔ ۔”
نہ جانے دیپا کے نام سے پریم کا کیا تعلق تھا؟ادھر اس کا نام پریم کے لبوں سے نکلتا تو آنسو کی دھار اس کی آنکھوں سے بہنے لگتی تھی ۔ ۔ ہمیشہ ۔ ۔
آج بھی دیپا پکارتے ہی وہ رونے لگ گیا ۔ ۔
دیپا!آج تو میری بات سن لے ۔ ۔
مجھے ۔ ۔ مجھے شما کر دے ۔ ۔ وہ حسبِ معمول دریا کو دیکھتے ہوئے معافی مانگ رہا تھا ۔
کہتے ہیں عورت مرد کی نظر کو فوراً بھانپ لیتی ہے ۔ دیپا خوب جانتی تھی ۔ ہوش سنبھالتے ہی جاننے لگی تھی کہ پریم اس کا دیوانہ ہے ۔ اس کی ہر ادا پر جان دیتا ہے ۔ مگر پریم کی محبت قطعاً
one sided
تھی ۔ ۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ یہ محبت لاحاصل ہے ۔ اور دونوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔ دیپا
تو تھی ہی اتنی پیاری کہ یہ محبت تو اس کا حق تھی اور پریم پر شاید اس کے نام کا حد سے زیا دہ اثر تھا ۔ اس کو دیپا کو چاہنے کے علاوہ کچھ نہیں چاہئے تھا ۔
بات اگر یہیں تک رہتی تو پھر یہ کہانی کیسے بنتی؟
دیپا کے لئے آخر کار ایک بہترین رشتہ آ ہی گیا اور اس کے ماں باپ نے اسے قبول کر لیا ۔ ۔
لڑکا خوبصورت تھا،کھاتا پیتا تھا اور بڑے گھر کا تھا اور کیا چاہئے؟
دونوں طرف سے شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں ۔ لڑکے والے دریا پار کے گاءوں سے تھے ۔ جب بھی وہ کوئی رسم کرنے یا پھر ویسے ہی ملنے ملانے دیپا کے گھر جاتے تو واپس جانے کے لئے پریم چند کی ناءو ہی کرائے پر منگوائی جاتی ۔
پریم چند کے دل پر کیا گذرتی تھی یا تو وہ خود جانتا تھا یا بھگوان ۔
کئی برسوں سے راتوں کو دیپا کے خواب دیکھنا تو پریم کا معمول تھا مگر اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ اور دیپاکبھی آمنے سامنے ہوں گے ۔ ۔ اتنے قریب ۔ ۔ بلکل اکیلے ۔ ۔
دیپا کے بیاہ کے دن بلکل قریب آ گئے تھے ۔ ۔ پریم نے اپنے دل پر پتھرکی سل رکھ لی تھی ۔ ۔ بلکہ خود کو پتھر کر لیا تھا ۔ ۔ کہ ایک دن دیپا کے گھر سے پیغام آ گیا کہ کل کشتی تیاررکھے ۔ دیپا اور اس کی ماں کو دریا پار کے مندر جانا تھا ۔ دیپا کی ماں نے اپنی نازوں پالی بیٹی کے بہترین رشتے کے لئے کب سے منت مانی ہوئی تھی کہ وہ پورے سات مندروں میں پرساد چڑھائے گی ۔ اور اب دیپا کے بیاہ کے دن بہت قریب آگئے تھے تو وہ جلد از جلد اپنی منت پوری کر رہی تھی ۔
پریم چند نے صبح سے اپنی ناءو صاف ستھری کر کے تیار کر رکھی تھی ۔ اگر اس کو دیپا کی ماں کا خوف نہ ہوتا تو وہ پورے گاءوں کے پھو ل دیپا کے قدمون تلے بچھا دیتا ۔ مگر ۔ ۔ دیپا کی ماں تو آئی ہی نہیں ۔ اکیلی آتی دیپا کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا ۔ دیپا کی ماں کو رات سے ایسا بخار چڑھا کہ وہ صبح کھڑی بھی نہیں ہو پا رہی تھی مگر اس نے دیپا کو منت پوری کرنے بھیج دیا ۔
کیا تھا اگر دیپا بھی نہ آتی؟یہ سب تو نہ ہوتا ۔ ۔ یہ سب ہو کر بھی کیا ہو گیا؟نہ تو پریم کو کچھ مل سکا نہ ہی دیپا کو ۔ ۔
دیپا آہستہ آہستہ چلتی آ کر کشتی میں بیٹھ گئی ۔ پریم نے کشتی پانی میں ڈال دی ۔ کشتی آگے بڑھنے لگی ۔ پریم آہستہ آہستہ چپو چلانے لگا ۔ دیپا سر جھکائے بیٹھی تھی ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جھجھک محسوس ہو رہی تھی ۔
نہ جانے کیا ہوا ۔ ۔ کیسے ہوا ۔ ۔ پریم میں جانے کیسے اتنی ہمت آ گئی ۔ ۔
کشتی دریا کے بیچ پہنچ چکی تھی ۔ پریم نے کشتی روک دی ۔ ۔
دیپا نے چونک کر پریم کو دیکھا ۔ ۔ نہ جانے کیا تھا دیپا کی خوبصورت آنکھوں میں ۔ ۔
اُس وقت دیپا کی مدھ بھری آنکھوں نے پریم پر سچ مچ نشہ طاری کر دیا ۔ ۔ وہ کسی مدہوش شرابی کی طرح ہر خوف سے بے نیاز ہو گیا ۔ ۔
’’دیپا ۔ ۔ تم ۔ ۔ تم یہ بیاہ مت کرو ۔ ‘‘ اور تو کچھ سوجھا نہیں ۔ ۔ پریم کے منہ سے یہ بے ربط جملہ پھسل گیا ۔
’’کیوں ؟ کیوں نہ کروں ؟
’’تم جانتی ہو ۔ اچھی طرح جانتی ہو ۔ ۔ میں تم سے پریم کرتا ہوں ‘‘ ۔ پریم کی آواز کانپنے لگی ۔
’’اچھا ! ‘‘ دیپا کا مخصوص اعتماد لوٹ آیا ۔ ۔ ’’تو پھر؟‘‘
ایک خوبصورت راج کمار جیسے لڑکے سے رشتہ طے ہو جانے سے دیپا میں غرور پیدا ہو گیا تھا ۔
’’تو یہ کہ تم ۔ ۔ مجھ سے ۔ ۔ شادی ۔ ۔ ‘‘پریم کی آواز ٹوٹ گئی ۔ ۔
تم سے شادی ؟‘‘ دیپا نے طنز کیا ’’تم ہو کیا ؟تم مجھ سے شادی کرو گے ۔ ۔ مجھ سے؟” شاید تم بھول گئے ہو کہ تم مچھیرے ہو تمہارا باپ بھی مچھیرا ہے ۔ مجھ سے شادی کا نام بھی لیا تو میرے پتا جی تم کو تمہاری ناءو کے ساتھ دریا میں پھنکوا دیں گے” ۔ ۔
پریم کی آنکھیں آنسوءوں سے بھر گئیں ۔ ۔ ’’کیوں ناءو دریا میں پھینک دیں گے ‘‘؟”کیا میں نے خود اپنے آپ کو مچھیرا پیدا کیا ہے”؟
تھوڑی دیر مزید دونوں کی بحث چلتی رہی ۔ ۔ اورپھر وہ ہو گیا جس کے ہونے سے دونوں کی تقدیر الٹ گئی ۔ ۔
سورج ڈوبنے لگاتھا ۔ ۔ کشتی دریاکے بیچوں بیچ کب سے رکی ہوئی آہستہ آہستہ ڈول رہی تھی ۔ ۔ دیپا حد سے زیادہ حسین لگ رہی تھی ۔ ۔
پریم کی نظریں دیپا سے ہٹنے کو تیار نہیں تھیں ۔ ۔
دیپا کو خوف آنے لگا ۔ ۔ شدید خوف ۔ ۔
’’پریم ۔ ۔ ناءو چلا ۔ ۔ ورنہ اچھا نہیں ہو گا ۔ ۔ ‘‘
اچھا تو ابھی بھی نہیں ہو رہا ہے دیپا ۔ ۔ ‘‘پریم کی آواز بھاری ہونے لگی “۔ ۔
نہ جانے کہاں سے ایک کمزور لمحہ ان کے بیچ آگیا ۔ ۔
-پریم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیپا کی آخری چیخ پریم کے کانوں میں گونج گئی
ٓآں ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ پریم کی آنکھ کھل گئی ۔ ۔ ۔ اف ۔ ۔
وہ چیخ ۔ ۔ وہ گونج ۔ ۔ اُسی طرح ۔ ۔ اُسی شدت سے اس کو محسوس ہوتی تھی ۔
دیپا نے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی ۔
وہ دیپا سے عشق کا دعوے دار ،اس کا پجاری اس کو بچانہیں پایا تھا ۔ ۔ ۔
جب و ہ لٹا پٹا آدھی رات کو گھر پہنچاتو اس کی حالت اتنی خراب تھی کہ اس سے زیادہ سوالات نہیں کئے گئے ۔ یہاں تک کہ دیپا کے گھر والوں نے بھی رو پیٹ کر صبر کر لیا ۔
بھنور میں کشتی الٹ گئی تھی” ۔ اس کے منہ سے بس اتنا نکلا تھا ۔”
ویسے بھی پریم اور اس کے گھر والوں کاسابقہ ریکارڈ سالوں سے اتنا شفاف تھا کہ ا ن پر شک کئے جانے کا تو سوال ہی نہیں تھا ۔
اور پھر ایک عرصے تک پریم بلکل سکتے میں آگیا تھا ۔ ۔ اس نے تو کسی سے بات کرنا ،ہنسنا مسکرانا بلکل چھوڑ دیا تھا ۔
اس کی حالت دیکھتے ہوئے دو تین سال بعد اس کی زبردستی شادی کر دی گئی مگر ۔ ۔ اس کا سکتہ نہ ٹوٹ سکا ۔ ۔ اس کا دل دوبارہ کسی کے لئے نہ دھڑک سکا ۔ ۔ کسی روبوٹ کی طرح وہ اپنی کشتی اور اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹتا رہا اور ۔ ۔ پچیس برس بیت گئے ۔
جب دیپا نے اس کی کشتی سے کود کر اپنی جان دے دی تھی تو اسی سال گاءوں میں ایک شادی ہوئی تھی ۔
دلہن دوسرے گاءوں وداع ہوئی تھی ۔ ۔ کشتی میں بیٹھ کر ۔ ۔
وہ شادی بڑے ہی ٹھاٹھ سے کی گئی تھی ۔ نہ صرف دولہا دلہن کی ،بلکہ بہت ساری سجی ہوئی کشتیاں پانی میں اتاری گئی تھیں ۔ جن میں تقریباً پورا گاءوں سوار تھا ۔ ۔ سوائے پریم چند کے ۔ وہ تو ان دنوں سخت شاک کی کیفیت میں مبتلا نہ جانے خلاءوں میں کیا ڈھونڈا کرتا تھا ۔
تو اس شادی میں پہلی مرتبہ دلہن کی ناءو بھنور میں پھنس کر الٹ گئی تھی ۔ اور دلہن پھولوں کی سیج کے بجائے موت کی آغوش میں جا سوئی تھی ۔
اس دن ۔ ۔ بلکہ اس رات ۔ ۔ پہلی مرتبہ دیپا ،پریم کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی ۔ ۔ اپنے لبوں پر وارننگ دیتی ہوئی مسکراہٹ اور آنکھوں میں نفرت اور انتقام لئے ۔ ۔
وہ خود تو دلہن بن کر رخصت نہ ہو سکی تھی ۔ ۔ مگر اب وہ کسی بھی دلہن کو دھرم پور سے رخصت نہیں ہونے دے گی ۔ ۔ کم از کم اطمینان سے تو ہر گز نہیں ۔ ۔ ۔ اس نے پریم کو جتا دیا تھا ۔
اور پھر گذرتے وقت نے ثابت کردیا کہ دیپا کی دھمکی غلط نہیں تھی ۔ ۔
پچیس سالوں میں کوئی پندرہ دلہنیں دریا کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں اور نہ جانے کب تک یہ خونی سلسلہ چلے جانا تھا ۔
پریم چند نے درخت سے بندھی کشتی کا رسّا کھول کر کشتی پانی میں اتار لی ۔ کوئی آدھی رات کا سمے تھا ۔ ویسے تو مچھلیاں پکڑنے کے لئے سارے مچھیرے بلکل سویرے ہی جال پانی میں ڈلتے ہیں مگر ۔ ۔ یہ تو کالی رات تھی ۔ سارے گاءوں پر سناٹا طاری تھا ۔
رات کتنی پر اسرار چیز ہوتی ہے نہ ۔ ۔ اچھے خاصے خوبصورت نظارے رات کی تاریکی میں ڈراءونے لگنے لگتے ہیں ۔
دریا آہستہ آہستہ بہتا ہوا اندھیرے میں بہت خوفناک لگ رہا تھا ۔ ۔ جیسے کالے لمبے سانپ رینگ رہے ہوں ۔ ۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کی آواز اس وقت بین کرتی محسوس ہو رہی تھی ۔ ۔ ایسا لگ رہا تھا اب یا تب ۔ ۔ کچھ ہو جائے گا ۔ ۔ کچھ بہت برا ۔ ۔
کشتی دریا کے بیچ پہنچی تو خود بہ خود رک گئی ۔ ۔
آہ ۔ ۔ وہی سفید آنچل اس کے چہرے سے ٹکرایا ۔ ۔ پریم چند اپنے خیالوں سے نکل آیا ۔ ۔
وہ کشتی کے کونے میں بیٹھی تھی ۔ ۔ عین اسی جگہ جہاں پچیس سال پہلے بیٹھی ہوئی تھی ۔ ۔
سفید لباس پہنے ۔ ۔ وقت کے ساتھ اس کے حسن میں ایک عجیب چیز شامل ہو گئی تھی ۔ ۔ ایک دہلا دینے والی چیز ۔ ۔ ایک ڈرا کر رکھ دینے والا احساس ۔ ۔ ۔
پریم چند کانپنے لگا ۔ ۔ خوف سے ہر گز نہیں ۔ ۔ دیپا کی موجودگی کے احساس سے ۔ ۔
’’دیپا مجھے شما کردے ۔ ۔ میری بات مان لے ۔ ۔ ‘‘وہ بڑی ہمت کر کے بولاتھا ۔
’’تو نے سنی تھی میری بات ۔ ۔ ‘‘ دیپا مسکرائی ۔ ۔ نفرت سے بھری ہوئی مسکراہٹ
تو تو مجھ سے پریم کرتا تھا نہ” ۔ ۔” پوجا کرتا تھا نہ میری” ۔ ۔ “
کرتا تھا نہیں ۔ ۔ کرتا ہوں دیپو ۔ ۔ “ایک مرتبہ پھر دیپا کا نام لیتے ہی پریم کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے” ۔
آج تک کرتا ہوں ۔ ۔ تجھ سے محبت کرنے کے علاوہ میں نے اپنے جیون میں کیا ہی کیا ہے ۔ ۔ تو ہی سمجھ نہ سکی ۔ ۔ اس کی آواز بھرّا گئی
تو اس دن بھی غلط سمجھی تھی دیپا‘‘ پریم نے اپنی بات جاری رکھی ۔”
برسوں بعد آج وہ پھر سوال جواب کر رہے تھے ۔ آج وہ سب کچھ کہ دینا چاہتا تھا ۔ پچیس سال سے اس کی بات نامکمل تھی ۔
میں تو خواب میں بھی کبھی تیرے پاءوں بھی چھونے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا ۔ ۔ تو نے کیسے سوچا کہ میں اس دن تیرے ساتھ ۔ ۔ پریم گڑ گڑا رہا تھا ۔
دیپا کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔ ۔ ۔
’’تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ ۔ تیری نیت خراب ہو گئی تھی ۔ ‘‘دیپا کی آواز میں تیزی نہیں تھی ۔
’’تو میری جان لے لے دیپا ۔ ۔ سو بار لے لے ۔ ۔ مگر میری محبت پر اتنا بڑا الزام نہ لگا ۔ ‘‘ ۔ پریم کی آواز میں اتنا کرب تھا کہ برسوں پہلے دنیا سے گذر جانے والی دیپا ٹھٹھک گئی ۔ اس کی پچیس سالوں سے آگ برساتی ہوئی آنکھیں پانی سے بھر گئیں ۔ ۔
’’برسوں سے میں صرف تیرے مر جانے کا دکھ ہی نہیں جھیل رہا ہوں دیپا ۔ ۔ میں اس آگ میں جل رہا ہوں کہ تو نے میری پوجا پر شک کیا تھا تو نے مجھ سے ڈر کر جان دے دی تھی ۔ ۔ ۔ کتنی جانیں لے لیں تو نے دیپا ۔ ۔ ان کا کیا قصور تھا؟
’’میرا کیا قصور تھا ؟دیپا پھر بھڑک اٹھی ۔ ۔ نہ تو مجھے پوری زندگی مل سکی نہ ہی پوری موت ۔ ۔ میں کیوں بھٹک رہی ہوں ؟ میں اب بھٹکتے ہوئے تھک گئی ہوں ۔ ۔ مجھے اب شانتی چاہئے ۔ ۔ ۔ مجھے پو را جیون نہیں ملا ۔ ۔ پریم ۔ ۔ مجھے اب پوری موت چاہئے ۔ ۔ ‘‘
آہ ۔ ۔ آہ ۔ ۔ پریم کے چہرے سے ایک بڑی سی لہر آ کر ٹکرا گئی ۔ وہ بری طرح چونک گیا ۔ ۔ جیسے دنیا میں واپس آگیا ۔ ۔
دیپا کب کی غائب ہو چکی تھی ۔ ۔
Also Read:
بملا نے نوتن کی بات پکی کر دی تھی ۔ لڑکا خوبصورت تھا ،نوتن کے جوڑ کا تھا اور ۔ ۔ دریا کے پار رہتا تھا ۔ ۔
پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ بملا نوتن کا رشتہ دریا پار کرتے ہوئے ہچکچا رہی تھی ۔ ۔ مگر پریم چند نے پہلی مرتبہ ضد پکڑ لی تھی ۔ ’’تو بھگوان کا نام لے کر بیاہ طے کر دے” ۔ ۔ نوتن کی ناءو نہیں ڈوبے گی ۔ ۔
اب کسی دلہن کی ناءو نہیں ڈوبے گی” ۔ ۔ اس نے اپنے دل میں کہا تھا ۔”
شادی کا دن قریب آچکا تھا ۔ ساری تیاریاں مکمل تھیں ۔ بملا بہت خوش تھی ۔ ۔ سارا گاءوں ہی خوش تھا ۔ ۔ ۔ مگر ۔ ۔ پھر بھی ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا ۔ ’’جانے کیا ہو گا”؟
بارات سے چند دن پہلے پریم چند نے اپنی برسوں پرانی کشتی باہر نکال لی ۔
اس کشتی کو کیوں نکال لیا پتا جی؟اس میں تو سوراخ ہے “۔ ۔ اس کے بیٹے نے حیرانی سے پوچھا تھا ۔”
سوچ رہا ہوں مرمت کروا لوں ،پرانی چیز ہے مضبوط ہے” ۔ ۔ اس نے بیٹے کو ٹال دیا ۔”
آدھی رات گذر چکی تھی ۔ پریم چند نے اپنی پرانی کشتی دریا میں اتار دی ۔ یہ وہ ہی کشتی تھی جس سے دیپا نے دریا میں چھلانگ لگا کر جان دے دی تھی ۔ ناءو بہت خستہ حال ہو چکی تھی مگر پریم نے اسے سنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔ ۔ بلکہ اپنی جان سے لگا کر رکھا ہوا تھا ۔
کشتی میں موجود سوراخوں کو کپڑے بھر کر بند کیا ہوا تھا مگر پھر بھی وہ بہت آہستہ رفتار سے بہہ رہی تھی ۔
آخر کار کشتی دریا کے بیچوں بیچ پہنچ ہی گئی ۔ ۔ پریم کو محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر پچیس سال پیچھے پہنچ گیا ہو ۔ وہی ناءو ،وہی پانی کی لہریں اور وہی پریم ۔ ۔ ہاں دیپا نہیں تھی ۔
اور ہاں ۔ ۔ آج برسوں کے بعد پریم بہت مطمئن تھا ۔
کوئی آج کل کی بات نہیں صدیوں سے سنتے آرہے ہیں ۔ ۔ پریم بھی سنتا آیا تھا ۔ ۔ کسی بھٹکتی آتما کو کیسے مکتی ملتی ہے ۔ ۔ کوئی برسوں سے در بدر پھرتی بد روح کس طرح ہمیشہ کے لئے شانت ہو جاتی ہے ۔ ۔
اس کے مرنے کی وجہ کو سزا دے کر ۔ ۔ اس کو بلکل اسی انداز میں موت دے کر جس طرح اسے مارا گیا تھا ۔ ۔
پریم نے کشتی روک دی ۔ ۔ ۔
’’دیپا دیکھ میں آگیا ہوں ۔ ۔ وہیں کھڑا ہوں ۔ ۔ اسی جگہ ۔ ۔ تو نے میری محبت قبول نہیں کی ۔ ۔ ‘‘اس کی آواز بھّرا گئی ۔ ۔
’’تو نے میری معافی قبول نہیں کی ۔ ۔ آج تک نہیں کی ۔ ۔ پر دیپا ۔ آج میری بھینٹ قبول کر لے ۔ ۔ ‘‘
پریم نے ناءو کے سب سے بڑے سوراخ سے کپڑا نکال لیا ۔ کشتی میں تیزی سے پانی بھرنے لگا ۔
’’یہ بھینٹ تجھے قبول کرنی پڑے گی دیپا ۔ ۔ اس میں ہی نجات ہے ۔ ۔ تیری بھی ۔ ۔ اور میری بھی ۔ ۔ ‘‘
پریم کی کمر تک پانی آگیا ۔ ۔ کشتی تقریباًڈوب گئی تھی ۔
’’دیپو !مجھے شما کر دے ۔ ۔ گاءوں کی دلہنوں کی بھینٹ لینا چھوڑ دے ۔ ۔ ‘‘
پریم کے چہرے سے ایک آنچل آ ٹکرایا ۔ ۔
اچانک کشتی زور زور سے گھومنے لگی جیسے کسی بھنور میں پھنس گئی ہو ۔ ۔
پریم نے ایک گہری،ٹھنڈی ،آخری سانس بھری ۔ ۔
ایک تیز لہر نے آخر کار کشتی کو الٹ دیا ۔ ۔
پریم چند لمحوں میں میلوں گہرے پانی میں جا گرا ۔ ۔
نوتن کی بارات پریم کی وصیت کے مطابق اسی تاریخ پر آئی اور خیریت سے دریا پار پہنچ گئی ۔
اس دن کے بعد دریا نے پھر کبھی کسی دلہن کی بھینٹ نہیں مانگی ۔
Read Also:
Not A Good Story
Pls explain why?
Bcoz its just a stroy not a horror story
You are right, Imran. We write mysterious stories as well. Chalchaya is a platform of mystery, horror and thriller stories.