مّما! میرے شولڈرز میں بہت
ہو رہا ہے۔Pain
مغرب کی نماز پڑھتی امّاں جی کے کانوں مین مِیشا کی آواز پڑی لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر بیٹھی ہوی مہرین نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دِیا۔
’’مّما‘‘ اس نے دوبارہ پُکارا۔
ادھر آجا بیٹا ! میں دبا دوں۔ سلام پھیر کر امّاں جی نے اسے پُکارا ۔
بیٹا ‘‘! مہریں کو جیسے کرنٹ لگا‘‘
اُٹھو اور جا کر کوئی پین کِلر لے لو
مِیشاکو اس طرح پڑے دیکھ کر وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
’’چلو اُٹھو فوراََ ۔‘‘
امّاں جی نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھا دیے۔
Also Read:
Bewafa
Pukar
Qudrat
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ امّاں جی جب بھی مِیشا کو کو پُکارتیں۔ یا مِیشا ان سے کوئی لاڈ کرتی مہرین کے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔
کلیم تک تو وہ مجبور تھی۔ ان کو امّاں جی کے پاس بیٹھے دیکھ کر شدیدکوسنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتی تھی۔
کیونکہ اس کو تقریباََ سر پر بیٹھانے کے باوجود کلیم اس معاملے میں اس کی ایک نہیں سنتا تھا۔
ورنہ اپنے پُرانے گھر کے سامان کی طرح مہرین امّاں جی کو کب کا کہیں پھینکوا چکی ہوتی۔ شاید اپنی شادی کے پہلے سال ہی ۔
وہ ایسی ہی تھی۔ شدید بدلحاظ، بدزبان ، بدتمیز عورت ۔ شاید ‘بد’ کا لفظ بنا ہی اس جیسی عورتوں کے لئے تھا۔ صرف ’’بدصورت‘‘ وہ ہر گز نہیں تھی کسی بَلا کی طرح وہ بلا کی خوبصورت واقع ہوئی تھی۔
اس کی اسی خوبی پر کلیم 20 سال پہلے مر مِٹا تھا۔
اور اس سے شادی کرکے دم لِیاتھا۔ اوراس شادی میں کوئی رُکاوٹ بھی نہیں تھی۔ کلیم کا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ لے دے کر بس ایک ’’امّاں جی ‘‘۔ جو کہکلیم کی سگّی خالہ تھیں۔
امّاں جی کا کسی وجہ سے گھر آباد نہ رہ سکا اور وہ اپنی شادی کے چند سال بعد ہی اپنی بہن یعنی کلیم کی والدہ کے پاس آگے ۔ ان کے والدین حیات نہیں تھے ۔ کلیم ان کی اکلوتی اولاد تھا۔ مختصرترین خاندان ہونے کی وجہ سے کلیم کے والد کو بھی ان کے وہاں رہنے پر ہر گز اعتراض نہ تھا۔
(اگر اعتراض کرتے تو امّاں جی اور کون سا ٹھکانہ تھا ؟)
ویسے بھی ان وقتوں کے لوگ بڑے دل کے مالک ہوتے تھے۔
دور کے رِشتوں کو بھی تا زندگی نِبھاتے تھے۔کلیم اپنی اکلوتی خالہ سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا تھا۔
ایک ایک کرکے اس کے امّی ، اّبا دُنیا سے چلے گئے تو خالہ نے اسے ماں کی طرح سنبھال لیا۔ وہ بھی ان کو اّاں بی کہنے لگا۔ اور ماں کی طرح ہی ان کی عزت کرتا۔ گھر اپنا تھا۔ اور کچھ جمع جتھا بھی تھا۔
کلیم کی سگی والدہ اور اماں بی کے زیورات بھی تھے۔ جو کچھ کلیم کی تعلیم پر کام آئے اور پھر اس کی شادی پر۔ مہرین بہو بن کر گھر آئی۔
سارے گھر پر اس کا بلا شرکت قبضہ ہو گیا۔ بے آسراعورت تک برداشت نہ ہو سکی۔ اس نے پہلے دن سے اماں جی سے بیر پال لیا۔
اماں جی نے بہت کوشش کی کہ مہرین یہ دیوار گرادے اور ان کے ساتھ ساس بہو والا نہ سہی ایک پڑوسی کا رِشتہ ہی نبھالے مگر نہیں۔
مہرین کو تو ان سے جیسے چِڑ تھی۔ وہ تو کلیم اماں جی سے بہت مانوس تھا اور صرف وہ ایک معملہ تھا جس میں اس نے مہرین کی کبھی نہ چلنے دی تھی۔ ورنہ وہ تو کب کی ان کو ایدھی سینٹر یا اولڈ ہوم بھیج چُکی ہوتی۔
کلیم اپنے والدین کا اکلوتا تھا، اِتفاق سے اس کے بھی صرف ایک ہی اولاد ہو سکی ’’میشا‘‘ ۔ مِیشا اپنے ماں، باپ اور دادی تینوں کی آنکھ کا تارا تھی۔
تینوں جیسے اسے دیکھ کر جیتے۔ مگر مہرین کو ہر گز گوارا نہ تھا کہ خالہ بی اس کو ہاتھ تک لگائیں۔ وہ تو اپنے گھر کے برتن تک ان کو نہ چھونے دیتی تھی۔کہاں اس کی لاڈلی اکلوتی بیٹی۔
مگر بچہ تو بچہ ہوتا ہے۔ میشا قدرتی طور پر دادی سے مانوس تھی۔ وہ بھی اپنے باپ کی طرح ان کو اماں جی پُکارتی اور اکثر ان سے باتیں کرتی۔
جس پر مہریں سُلگ کر رہ جاتی اور بہانے سے مِیشا کو وہاں سے اُٹھا دیتی ۔ یہاں اماں جی بھی دل سے مجبور تھیں۔ مہرین نے سالوں سے انہیں ان کے کمرے تک محدود کر دیا تھا۔ آنا جانا کہیں تھا نہیں ایسے میں معصوم مِیشا سے پیاری پیاری باتیں سُننا اچھا لگتا۔
ایسے ہی مہرین کے لئے جنت جیسا اور اماں جی کے لئے سخت وقت گُزرتاچلاگیا۔اور مِیشا بڑی ہوگئی۔ کلیم کے دل میں مہرین کی مُحبت ویسی ہی تھی یا نہیں یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اب بہت خاموش رہنے لگا تھا۔
بس صبح سے رات ’’کام ‘‘۔ ماں باپ کے دُنیا سے گُزرنے کے بعد کلیم نے جیسے تیسے واجبی تعلیم مکمل کی، قِسمت اچھی تھی بہت مُناسب نوکری مِل گئی۔
چھت اپنی تھی، اُولاد بھی بس ایک بچی، بہت آرام اور سَکون سے گُزارہ ہو رہا تھا مگر مہریں کو اچانک نئی نئی سوجھنے لگی۔ دراصل اس کی بہن ثمرین جو نہ صرف اس عمر میں بڑی تھی بلکہ دوسرے ’’اُوصاف‘‘میں اس سے بھی کہیں آگے تھی۔ اپنا پُرانا گھر بیچا اور نہ جانے کس طرح کلفٹن شِفٹ ہو گئی۔
مہریں اماں جی سے تو ڈھنگ سے بات تک نہیں کرتی تھی مگروہ اس اچانک کایا پلٹنے کی وجہ سے بس کلیم کے پیچھے پڑ گئی کہ اب اس علاقے میں نہیں رہنا۔
کلیم نے شروع میں تو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ مہرین ہی کیاجو مان جائے۔ خود ہی اسٹیٹ ایجنسیوں کے چکر لگائے، اس گھر کی قیمت لگوائی اور ایک بڑا لون لے کر کلفٹن میں فلیٹ خرید کر ہی دم لِیا۔ جس کی قیمت کڑوڑوں میں تھی۔
اچھے خاصے بڑے گھر کو چھوڑ کر اس چھوٹے سے فلیٹ میں شفٹ ہو گئے جس میں بالِشت بھر کے تین کمرے اور چھوٹا سا لاؤنچ تھا۔
ایک کمرہ ڈرائینگ روم کے نام ہو گیا، ایک مِیاں بیوی کا بیڈروم، اور ایک مِیشا کا۔ رہیں بے چاری امّاں بی تو ان کی اُوقات ہی کیا۔ چھوٹے سے لاؤنچ میں ان کا تخت فٹ کر دیا گیا۔ جس پر وہ نماز بھی پڑھتیں، کھانا بھی کھاتیں اور نیند آنے پر وہیں پڑ کر سوجاتیں ۔
کلیم پر اچانک اتنا قرض کا بوجھ پڑ گیا تھا کہ اس کندھے ایک دم جُھک گئے تھے۔ اتنا مہنگا فلیٹ پھر اس میں نیا فرنیچر ڈالا گیا اور اب اس پر بس نہیں مہرین نے تو جیسے پَر نکل آئے تھے۔ یہاں آتے ہی اس نے آس پاس کی کئی امیر، ماڈرن، انتہائی فیشن ایبل عورتوں سے دوستیاں کرلی تھیں، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔
جو فیشن اس نے اپنی جوانی میں نہیں کِئے وہ اب اس ڈھلتی عمر میں اپنا رہی تھی۔ تو پھر مِیشا تو ابھی بالکل نوجوان تھی۔18سال کی بہت حَسِین، گوری چٹی، لمبے بالوں والی مِیشا پر جو نظر ڈالتا، ہٹانا بھول جاتا۔ وہ آزادانہ جینز شرٹ میں باہر نکلنے لگی تھی۔ امّاں بی نے ایک دو مرتبہ اعتراض کرنے کی کوشش کی مگر مہرین نے ان کو بُری طرح جھڑک دِیا۔
اب تو اس کو امّاں بی کا وجود بُری طرح کھٹکنے لگ تھا۔ پُرانے گھر میں تو امّاں بی کمرے میں بند تھیں مگر اب مجبوراََ ان کو لاؤنچ میں رکھنا پڑ گیا تھا۔ساری
Activities
ان کی نظروں کے سامنے ہی ہوتی تھیں۔
کون آرہا ہے؟ کون جارہا ہے؟ کس نے کیا پہنا ہے؟ دُوپٹہ اوڑھا ہے یا نہیں؟
مہرین کی حد تک تو اماں بی برسوں سے خاموش ہو چکی تھیں۔
مگر ’’مِیشا‘‘ ان کا اپنا خون، ان کے کلیم کی اکلوتی اُولاد۔
اگر وہ ان کو اول جلول حُلیے میں بغیر دوپٹے یا بال بکھیرے باہر نکلتی نظر آتی تو وہ زبان کھولنے پر مجبور ہو جاتی تھیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو ٹوک دیتی تھیں۔
جس پر مہرین کو آگ لگ جاتی۔
’’کلیم آگیا بیٹا‘‘، کلیم کو دیکھ کر امّاں نِہال ہو جاتیں۔
پہلے تو کلیم مغرب تک آجاتا تھا مگر جب سے اس نے اُوور ٹائم شروع کیا تھا آتے آتے دیر ہوجاتی ۔ اس وقت عموماََ امّاں بی عشاء کے بعد تسبیح پڑھ رہی ہوتی تھیں۔
وہ جلدی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر تیں اس پر دم کرتیں۔
وہ ان کے پاس ہی تخت پر لیٹ جاتا۔
’’مہرین ! کھانا ادھر ہی لے آؤ۔‘‘ اس نے آواز لگائی۔
’’میرا بھی اور امّاں بی کا بھی۔‘‘
مہرین کھانا ان دونوں کے سامنے پٹخ کر کمرے میں گُھس گئی۔
دروازہ اس زور سے مارا کہ امّاں بی اچھل گیں۔
مگر کلیم نے اطمینان سے کھانا شروع کر دِیا ، ظاہر ہے یہ کوئی نئی بات تو نہ تھی۔ دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔
ادھر مہرین اپنی بہن سے محو گفتگو تھی۔
منحوس بُڑھیا‘‘! نہ جانے کب جان چھوٹے گی اس سے مجھ سے اب اس کی شکل پر نظربھی نہیں ڈالی جاتی ہے۔وہ دل کے پھپھولے پھوڑ رہی تھی۔
جب کلیم آتے ہیں ان کو لے کر بیٹھ جاتی ہے۔ میرے خلاف بھرتی ہے۔ اور کلیم فوراََ روک ٹوک شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نہپہنو وہ پہنو… مِیشا پر نظر رکھو ، نماز پڑھو ، ہونہہ پڑھ لیں گے نمازیں بھی جب بڑھاپاشروع ہو گا۔ یہ تو چاہتے ہیں میں ابھی سے ہر وقت میں ہر وقت مصلّے پر بیٹھی رہوں‘‘۔
حالانکہ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ اماں بی نے کبھی مہرین کے خلاف کلیم کے کان نہیں بھرے تھے۔وہ اچھی طرح جانتی تھیں کلیم مکمل طور پر جوروّ کا غلام ہے۔ وہ مہرین کے آگے بول ہی نہیں سکتاہے۔اور یہ گھر ان کی واحد پناہ گاہ تھا۔ اگر مہرین ان کو یہا ں سے نکال دیتی تو وہ کہاں جاتیں؟ وہ لرز جاتیں۔ اس ڈر سے بھی وہ بہت سی باتیں دیکھ کر نظر انداز کرتی آئی تھیں۔ مگر اب’’ مِیشا‘‘۔
مِیشا کے اطوار بہت بدلے نظر آرہے تھے۔
ایک تو چڑھتی عمر، حُسن اور پھر اس قدر آزادی۔۔۔۔
انہیں خوف آنے لگتا۔وہ آرام سے جینز پہنتی، دوپٹہ تو جیسے اُوڑھنا چھوڑ ہی دیاتھا۔
پوری شام پارک میں گھومتی ۔ ان کے گھر کے قریب کئی ایک پارک تھے۔ جن میں چھٹی کے روز کلیم ان کو بھی لے جاتا تھا۔
مگر مغرب کی ازان سنتے ہی امّاں بی واپسی کا ارادہ کو لیتی تھیں ایک تو نماز کا وقت اور بھر پارک میں موجود پرانے قدیم پُراسرار درخت انہیں عجیب سا ہول آنے لگتا۔
وہ مِیشا کو بھی اکثرمنع کرتیں ۔ ’’دیکھو مِیشو بیٹا! یہ لمبے بال کھول کر اتنی خوشبولگا کر اِس وقت باہر نہ نکلا کر، اور ان درختوں کے نیچے تو بلکل نہ پھراکر‘‘۔ وہ سمجھاتیں ۔
مگر اگر مِیشا ان کی بات سننے کی کوشش کرتی بھی تو مہرین لازمی ان کے
Against
جاتی۔
’’walk‘‘جاؤ مِیشا!‘‘ وہ اس کو ترغیب دیتی۔
بہت ضروری ہے۔ بلکہ میرے جاگرز بھی لے آؤ
دونوں ماں بیٹیاں اطمینان سے باہر نکل جاتیں۔ مہرین نے تو کیا واک کرنی ہوتی تھی۔ کسی بینچ پر اپنی ہم مزاج عورت کے ساتھ گپیں مارتی رہتی مِیشا درختوں کے آگے پیچھے بھاگتی پھرتی۔
ایسے ہی ایک شام بلکہ رات کو مہرین پڑوسیوں کے ساتھ طویل نِشت لگا کر گھر میں داخل ہوئی مِیشا ابھی پارک میں ہی تھی۔
ان مختصر مہنگے فلیٹوں میں صحن نامی کوئی چیز تھی ہی نہیں ۔
شام کو ساری عورتیں ، لڑکیاں ،لڑکے گھبرا کر باہر نکل پڑتے تھے۔
کوئی شاپنگ سینٹرکا رُخ کرتا، کوئی ریسٹورنٹ کا، جن کی روز شاپنگ کی یا لونگ ڈرائیو کی اوقات نہیں تھی جیسےمہرین… تووہ پارکوں میں چلے جاتے۔
اماں بی اور کلیم تخت پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
مہرین کو دیکھ کر کلیم کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’ مِیشا کہاں ہے؟‘‘اس نے صرف اتنا پوچھا۔
’’آتی ہوگی‘‘ ۔ اتنا کہہ کر کر مہرین اماں بی کو گھورتی ہوئی، پیر پٹختی کمرے میں گُھس گئی۔ اس کو سو فیصد یقین تھا کہ امان بی نے کلیم کے کان بھرے ہیں ۔ مگر امّاں بی نے تو ایک لفظ نہیں کہا تھا۔
کلیم خود مہرین اور مِیشا کے بدلے اطوار اور لباس دیکھ رہا تھا۔
اس کو مہرین نے قرضے اور فائلوں کے بوجھ تلے ایسا دبایاتھا کہ وہ سر ہی نہیں اُٹھاپاتا تھا‘‘۔
مہرین کو تو اس نے سالوں سے اس کے حال پر چھوڑ دِیا تھا۔
مگر مِیشا کی یہ رَوِش کبھی کبھی اس کو زبان کھولنے پر مجبورکر دیتی تھی۔
وہ مِڈل کلاس ، بلکہ لوئرمِڈل کلاس لوگ تھے۔
مہرین کی مِثال اس کوّے کی طرح ہوگئی تھی جو ہنس کی نقل میں اپنی چال بھی بھول گیاتھا۔
مِیشا کے حُسن کی وجہ سے آس پاس کی لڑکیوں سے اس کی دوستی تو ہو گئی تھی۔ مگر ان جیسا لِباس، اور کلاس فیلوزسے آذا دانہ میل جول کلیم کو بالکل ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
مگر مہرین بہت خوش تھی۔ اس کا چھوٹا تنگ زہن بے ہودہ آزادی کو ماڈرن ازم سمجھ رہا تھا۔ زندگی نے جو چند چیزیں اس کو نہیں دی تھیں ان میں ایک آزادانہ بے حِجاب روش تھی۔ جو اب اس کو میّسر آئی تو اس سے اپنا وجود سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔
ایسا نہیں تھاکہ آس پاس ساری خواتین اسی طرح کی تھیں۔ بلکہ زیادہ خواتین امیر اور دولت مند تو بے شک ہوں گی مگر عام گھریلو خواتین اور لڑکیاں تھیں۔ صرف چند ایک شُو باز، کُھلی ڈُلی عورتیں ضرور پائی جاتی تھینں اور مہرین نے چن کر ان سے ہی دوستی کی تھی۔ اور ان کی طرح بننے اور دِکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔’’پتا نہیں اس کی کون سی خواہِش تشنہ رہ گئی تھی ‘‘۔۔۔۔امّاں بی سوچتیں۔
اس وقت مِیشا گھر میں داخل ہوئی۔
کلیم نے نظر وال کلاک پر دوڑائی ’’ساڑھے گیارہ‘‘۔۔۔
مِیشا بیٹا کہاں تھیں اتنی دیر تک؟‘‘ امّاں بی کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’Friends‘‘
کے ساتھ تھی‘‘۔ اس نے بے نیازی سے جواب دیا۔ اور کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔ کلیم شعلہ بار نظروں سے اس گھور رہا تھا۔ جینز پرچھوٹی سی ٹی شرٹ۔
لمبے بالبکھراے، پائنچے اوپر کی طرف چڑھائے، اس کے کیچڑ لگے پائنچوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ساحل پر کئی تھی۔
امّاں بی دہل کر رہ گئیں۔’’ اس وقت سمندر پر جوان بچی‘‘۔
اس رات شادی کے 20 سال کے عرصے میں پہلی مرتبہ کلیم نے مہرین کو بہت سُنائیں۔
اس کو مِیشا کے یہ طورطریقے بلکل برداشت نہیں ہو رہے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بِگڑ رہی ہے۔مہرین کون سا خاموش رہنے والی تھی اس نے د’وبدُو مقابلہ کیا۔کلیم کو تنگ زہن، دنیا سے پیچھے رہ جانے والا انسان ٹہرایا۔
اس کا کہنا تھاکہ 20 سال اس نے گُھٹ کر زندگی گزاری ہے اور اب اگر اس کو من پسند وقت نصیب ہوا ہے تو وہ بھی کلیم سے برداشت نہیں ہو رہا ہے۔
کچھ بھی ہو مہرین ! تم خود جو چاہے کرتی پھرو۔ مگر مِیشا کی اس قدر آزادی میں برادشت نہیں کروں گا‘‘۔ اس نے جیسے وارننگ دی تھی۔
امّاںبی اپنے تخت پر لیٹی سب سُنتی رہیں۔ مختصر سا تو گھر تھا۔ ساری آوازیں صاف سُنائی دیتی تھیں۔ اوروہ دونو ں کون سا لحاظ کر رہے تھے۔ چیخ چیخ کر لڑ رہے تھے۔
صبح کلیم بغیر ناشتہ کِئے آفس چلا گیا۔ امّاں بی پیچھے سے آوازیں دیتی رہ گئیں۔ وہ تو نہ رُکا۔ مگر اس کے باہر نکلتے ہی مہرین اپنے کمرے سے باہر نکل آئی۔
’’مِل گیا چین آپ کو؟‘‘ وہ ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی ۔
’’ہیں؟‘‘ وہ کچھ نہیں سمجھیں۔
نہیں بہو ! میں تو خود کلیم کو روک رہی تھی کہ ناشتہ کر کے جائے۔
زیادہ بھولی نہ بنیں۔ کل جو گھنٹوں خالہ بھانجے کی میٹنگ چل رہی تھی یہ اس کا نتیجہ ہے جو کلیم اتنا ناراض ہو رہاتھا۔ آخر آپ کو مِلتا کیا ہے۔یہ سب کر کے؟ ویسے تو بڑی نمازیں پڑھتی ہیں،تسبیحیں گُھماتی ہیں۔
ہونہہ ’’صورت مومِناں، کرتوت کافراں‘‘۔ وہ انہیں جملے سُنا کر واپس چلی گئی۔
امّاں بی رنج کے عالم میں بیٹھی رہ گئیں۔
لو بھلا میں نے کب کچھ بھرا کلیم کو… اس کی آنکھیں نہیں ہیں کیا۔ وہ بڑ بڑائیں۔
مہرین اس روز کے بعد تھوڑی محتاط ہو گئی۔
وہ اچھی طرح اور امّاں بی تھوڑا تھوڑاجانتی تھیں کہ مِیشاکے دوستوں میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔
مہرین کو اس پر قطعاََ کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ’’اچھا ہے اس طرح کوئی اچھا رشتہ ٹکرا جائے ‘‘۔ وہ سوچتی
آخر اس کی اور کلیم کی بھی تو Love Marriage
تھی۔ مگر کلیم تو ایک سیدھا سادا شریف لڑکا تھا۔ اس نے فوراََ ہی اس کے لئے اپنا رِشتہ اس کے گھر بھجوا دیاتھا۔ کبھی اس سے باہر مُلاقاتوں اور پھر ان سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
یہاں وہ اٹک جاتی ۔ مِیشا کے ’’دوست‘‘ ان کے حُلیے یہ ان کے زہنیت کی گوا ہی دیتے تھے۔ انہوں نے ابھی کیا شادی بیاہ کے بارے میں سوچنا تھا۔
لیکن پھر ۔۔۔۔’’اس کو گھبراہٹ ہونے لگتی۔‘‘
خیر ۔۔۔وہ سنبھل جاتی۔ ’’دیکھاجائے گا جو ہوگا‘‘۔
اس واقعے کے بعد تو مہرین جیسے امِاں بی کو کاٹ کھانے کو دوڑنے لگی تھی۔ اپنا کلیم کا غصہ وہ امّاں بی پر اُتارنے لگی تھی۔
اور تو اس کے بس میں کچھ ہوتا نہیں تھا وہ مِیشا کو ان کے پاس جانے سے ورکنے لگی جس طرح وہ اس کو بچپن میں روکتی تھی۔
امّاں بی اس کو کالج جاتے ہوئے اور پھر ہمیشہ باہر نکلنے سے پہلے اپنے پاس بِٹھاتیں۔ اس کی پیشانی چومتی، دیر تک اس پر قرآنی آیتیں اور دُعائیں پڑھ کر دَم کرتیں۔ حصار کھنچتیں۔
مگر اب مہرین مِیشا کو باقاعدہ بازوسے پکڑکر ان کے پاس سے گھسیٹ لے جاتی۔‘‘جاؤ تمھیں دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’جادو گرنی‘‘ وہ امّاں بی کو دیکھ کر نفرت سے بڑبڑاتی۔
مگر مِیشا آج کل کسی بات پر جیسے غور ہی نہیں کر رہی تھی۔
وہ جیسے اپنے حواسوں میں میں نہ تھی۔ کھوئی کھوئی رہتی، یا تو گھنٹوں باہر رہتی یا پھر گھنٹوں اپنے کمرے میں بند نہ جانے کیا کرتی رہتی۔
مہرین کے پاس ان باتوں کو محسوس کرنے کے لئے وقت نہیں تھا۔
اس کے پڑوسی میں ایک ماڈل آکر آبادہوئی تھی۔ وہ چند ایک کمرشلز میں کام کر چُکی تھی۔اور
بلکل اکیلی اپنے فلیٹ میں رہ رہی تھی۔
مہرین نے اس سے آخر کار ہیلو ہائی کرہی لی تھی اور اس کے پیر زمین پر نہیں تِک رہے تھے۔
وہ کلیم سے لڑائی اور اس کی وارننگ بلکل فراموش کر چکی تھی۔
آج کل اس کا زیادہ تر وقت اس ماڈل کے ساتھ یا اس کی اپنی سہیلیوں سےباتیں کرتے ہوئے گزررہا تھا۔
اس رات بھی مِیشا بہت دیر سے گھر آئی۔
امِاں بی نے اس کا بہ غور جائزہ لیا۔ لال سرخ گال، ہونٹوں پر بے وجہ مسکان آنکھوں میں خمار کی کیفیت۔
’’مِیشا‘‘ انہوں نے اسے پُکارا
جی !‘‘ اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔
جی امّاں ۔
بیٹا کبھی دادی کے پاس بھی بیٹھ جایا کر۔
خلاف توقع وہ ان کے پاس بیتھ گئی۔ بلکہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔ وہ پیار سے اس کے بالوں مین ہاتھ پھیرنے لگیں۔
مگر۔۔۔ان کی نظر مِیشا کے ہاتھوں پر پڑی۔
گورے گورے ہاتھوں پر سُرخ رنگ کے نشان تھے۔
جیسے کسی نے بہت زور سے پکڑا ہو۔
ہو چونک گئیں۔
انہوں نے مِیشا کے بال ہٹائے۔
اوہ‘‘ ۔۔۔ اس کی سفید گردن پر پیچھے کی جانب سے ،
’’یہ کیسے نشان ہیں۔۔۔؟‘‘
’’مِیشا‘‘۔۔۔انہوں نے اس آواز دی‘‘۔ یہ تیری گردن پر کیا ہوا ہے بیٹا؟‘‘
پتا نہیں امّاں ! مجھے بہت
Pain
ہو رہاہے
یہاں” اس نے اپنی گردن پر چھوا، شولڈرز میں بھی بہت”
Pain
ہے۔
وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
دوسرے دن انہوں نے بہت ہمت کر کے مہرین سے بات کی۔
بہو!‘‘ زارا سنوتو۔۔۔‘‘
مہرین نے آنکھ اُٹھا کر انہیں دیکھا تو ضرور مگر جواب نہ دیا۔
مگر انہوں نے ہمّت نہ ہاری:
’’بہو مجھے مِیشا کے بارے میں تم سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’کون سی بات؟‘‘
بہو مجھے وہ ٹھیک نہیں لگتی۔ تم زرا پتا تو کرو کہیں ۔ کہیں کچھ غلط خُدانخواستہ اس کی گردن پر عجیب نِشان۔۔۔۔
مہرین آپے سے باہرہو گئی۔ آپ ، آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟ آپ کا مطلب کیا ہے؟ میری معصوم بچی پر کون سا الزام لگا رہی ہیں آپ۔‘‘
امّاں بوکھلا گئیں۔’’تم غلط سمجھ رہی ہو بہو، مِیشو میں تو خود میری جان ہے۔ میں کیوں اس پر الزام لگاؤں گی۔ کل میں نے خود اس کی گردن اور ہاتھوں پر۔۔۔۔‘‘
کیا ہر بات کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے؟‘‘ مہرین نے ان کی بات کاٹ دی۔’’
اور اسی لئے تو میں اپنی بچی کو آپ کے پاس بیٹھنے نہیں دیتی ہوں ۔
اور آپ نے ہی کلیم کے کان بھرے ہوں گیاب تو مجھے یقین ہو گیاہے۔
وہ بکتی چلی گئی۔
امّاں بی کی آنکھو ں سے آنسو گرنے لگے۔
مہرین نے ویسے تو بک بک کر اپنی فرسٹریشن امّاں بی کے اوپر نکال لی تھی۔
مگر وہ خود مسلسل سوچ میں پڑی ہوئی تھی۔
مِیشا کے بدلے اطوار وہ بھی محسوس کر رہی تھی۔
اس کا کھویا کھویا رہنا، گُم صُم نہ جانے کیا سوچنا، آپ ہی آپ مُسکرانا۔
کہیں مِیشا کسی کو پسند تو نہیں کرنے لگی؟ اس کو خیال آیا۔
پسند تک تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔۔‘‘ اس سے آگے اس کا دل بیٹھنے لگا۔
مِیشا بہت کم عمر ، نادان ہے۔ اس کو بھلے بُرے کی پہچان ہی کہاں تھی۔
اور مہرین نے کونسا کبھی ماں بن کر اس کو کچھ سمجھایا۔
وہ تو خود اس سے بڑھ کر ’’چھیل چھبیلی‘‘ بنی ہوئی تھی۔
اگر کچھ ہوا تو کلیم تو میرا گلا دبا دیں گے۔ زیادہ بڑا خوف تو اس کے لئے یہ تھا۔
کرتی ہوں کچھ… اس نے سوچا۔
مگر کیا کروں؟ اس کے پاس خود کوئی جواب نہیں تھا۔
’’مِیشا ! چند دن بعد اس نے مِیشاسے بات کی۔
اس نے اپنی خوبصورت آنکھیں اُٹھا کر ماں کو دیکھا۔ نہ جانے کیا تھا ان آنکھوں میں مہرین گھبرا گئی۔
کیا بات ہے بیٹا؟‘‘ ’’تم بہت چپ رہنے لگی ہو، میں بات کروں تو جواب تک نہیں دیتی ہو؟‘‘ مہرین کو بہت دن بعد محسوس ہوا تھا۔
مِیشا نے جواب اب بھی نہیں دِیا۔ بس ایک خوبصورت مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر دوڑ گئی۔
دیکھو بیٹا اگر کوئی بھی بات ہے میرا مطلب ہے ۔۔۔۔کوئی پسندوغیرہ کا سلسلہ ہے تو تم مجھے بتاؤ۔ میں تمہاری ماں ہوں تمہارا ساتھ دوں گی۔
مگر بیٹاایسے شاموں میں غائب رہنا ۔۔۔اچھی بات نہیں۔
تمہارے ابّو بہت ناراض ہوں گے اگر ان کوپتا چلا تو
مگر مِیشا تو جیسے کچھ سُن ہی نہیں رہی تھی۔
اس نے ہونٹوں پر دلفریب مُسکراہٹ بکھری ہوئی تھی اور وہ نہ جانے کیا سوچ رہی تھی۔
مہرین کچھ دیر اس کے جواب کا انتظارکرتی رہی پھر گہری سانس لے کر اس کے پاس سے اُٹھ گئی۔
مگر ایک رات۔۔۔۔
ایک رات مہرین کی آنکھ کھل گئی۔ اس کو کئی راتوں سے عجیب بے چینی سی محسوس ہو رہی تھی۔ ایک شدید غیر معمولی پن اس کو گھبرائے دے رہاتھا۔ کلیم اپنے بستر پر بے خبر سو رہا تھا۔ ہوہ آہستہ سے باہر نکل آئی
اُف‘‘ امّاں بی لاؤنج میں اپنے تخت پر سو رہی تھیں اس کے منہ میں جیسے کڑواہٹ گھل گئی۔
اس نے فریج سے پانی نکال کر پِیا۔
مگر بے چینی کا احساس کم نہ ہوا۔
پتا نہیں کیوں اس کو لگنے لگا تھا کچھ ہونے والا ہے۔
کچھ بہت غلط…….
مہرین کا جیسے دمَ گھٹنے لگا۔
چلو کچھ دیر ٹیرس پر بیٹھتی ہوں۔ اس نے سوچا۔
مگر۔۔۔۔اس کے کانوں سے مِیشا کی آواز ٹکرائی۔
’’مدہم ، سرگوشی کرتی۔ آہستہ آہستہ کھنکتی ہنسی۔۔۔
اس وقت ۔۔۔۔مہرین کی نظر دیوار پر پڑی ’’ساڑھے تین‘‘۔۔۔
’’یہ کس سے باتیں کر ہی ہے اس وقت ۔۔۔؟
گھر والوں سے تو مِیشا نے بات کرنا جیسے چھوڑ ہی دیا تھا۔
’’مگر‘‘ مہرین کو یاد آیا۔ مِیشا کا فون تو خراب ہے۔
کئی دِن پہلے مِیشا کا فون گر کر ٹوٹ گیاتھا۔ اور ابھی ٹھیک ہو کر نہیں آیاتھا۔ لینڈ لائن ان کے بیڈروم میں تھا۔
تو کیا۔مِیشا نے اپنے کمرے میں کسی کو۔۔۔۔۔‘‘ اس سے آگے وہ سوچ بھی نہ سکی لاکھ آزاد خیال بننے کے باوجود اس حد تک تو وہ کبھی اجازت نہ دیتی۔۔۔۔
اس نے آہستہ سے مِیشا کے کمرے کے دروازے کو دھکیلا۔
خلاف توقع وہ لاک نہیں تھا۔
کمرے میں گُھستے ہی ایک تیز خوشبو نے اس کا استقبال کیا۔
’’او‘‘ شدید ناپسندیدگی اس کے بدن میں پھیل گئی ۔
کیا ماحول بنا رکھا ہے۔ نیم اندھیرا، تیز خوشبو، مگر۔۔۔۔۔
کمرے مین تو کوئی نہیں تھا۔
مہرین نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔
صرف مِیشا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹی اپنے بالوں میں بُرش کر رہی تھی۔
اور مُسکرارہی تھی۔۔۔ اور باتیں کر رہی تھی۔۔۔خود سے۔۔۔۔
اس کو پتہ تک نہیں چلا کہ مہرین کمرے میں آچکی ہے۔
وہ تو بدستور شرمانے اور بالوں میں برش پھیرنے میں مشغول تھی۔
’’تو کیا؟‘‘ مہرین کا دل گہرائی میں ڈوب گیا۔
مِیشا‘‘ میری بچی کو کوئی نفسیاتی بیماری ہوگئی ہے؟”ہائے میری اکلوتی بچی کو، میری جان،‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو نہنے لگے۔
میرے نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے یہ سب۔۔۔ اس نے سوچا۔
’’نہیں‘‘ اس نے کھڑے کھڑے فیصلہ کیا۔
میں اب ایک لمحے اس کو اکیلا نہیں چھوڑوں گی، اس کا علاج کرواؤں گی۔ کبھی اس کو نظر انداز نہیں کرون گی‘‘۔۔۔
’’میری مَیشا‘‘۔۔۔ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھی اور چاہا کہ مَیشا کو اپنے بازؤں میں بھرلے۔۔۔
مگر یہ کیا۔۔۔۔
بات تو اس سے کہیں زیادہ تھی۔۔۔
بہت زیادہ۔۔۔۔
شاید۔۔۔۔۔
ناقابل علاج۔۔۔۔
مِیشا آئینے میں خود سے باتیں نہیں کر رہی تھی۔۔۔
بلکہ ۔۔۔ آئینے میں وہ تھا۔۔۔۔
کو ئ اور۔۔۔
نہ جانے کون۔۔۔
آئینے میں مِیشا کا نہیں، ایک نوجوان کا عکس تھا۔
” خوبصورت نوجوان”
اس کی نظریں مہرین سے ٹکرائیں اور وہ مُسکرانے لگا۔
…مگر اچانک
اس کی خوبصورتی یکلخت غائب ہو گئی ۔ اور وہ شاید اپنی اصل شکل میں آگیا۔ مکروہ، بھیانک۔۔۔۔
مہرین پاگلوں کی طرح کمرے میں نکل کر باہر بھاگی۔
راستے میں لاؤنج پر بڑے تخت پر ٹھوکر کھا کر گِرپڑی۔
’’کک۔۔۔کون! کون ہے؟ اماں بی نے گھبرا کر پُکارا۔
’’کوئی نہیں اماں بی ‘‘۔۔۔ مہرین نے بمشکل آواز نکالی۔
اور نہ جانے کیوں۔۔۔۔۔
…..امّاں بی کے کمزور قدموں سے لپٹ کر وہ رونے لگی
Read Also: