URDU HINDI HORROR STORY: PHIR EK RAAT
تھکن سے میرا برا حال تھا ۔ پورے ڈھائی گھنٹے گروسری اسٹور میں گذار کر،سامان سے لدے ہوئے تھیلے اٹھا کر جب میں گھر میں داخل ہوا میرے منہ میں جیسے کڑواہٹ گھل گئی ۔
باہر سورج آگ برسا رہا تھا ۔ ۔ مگر ٹھنڈے ٹھنڈے لاءونج میں صوفے پر نیم دراز،انکل شہزاد انتہائی آرام اور انہماک سے اخبار کا مطالعہ فرما رہے تھے ۔ میری آہٹ محسوس کر کے انہوں نے اخبار کے پیچھے سے اپنا چہرہ نمودار کیا اور
دی۔ wide smile بڑی ہی
Also Read:
میں نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے ان کو سلام کیا جس کا جواب دیتے ہی انہوں نے دوبارہ اخبار اپنے خوبرو چہرے کے آگے کر لیا ۔
ارے کاشف!آگئے بیٹا ۔ ۔ “زہرہ خالہ کچن سے چائے کا کپ لے کر برامد ہوئیں” ۔ جو انہوں نے انکل کے سامنے رکھ دیا ۔
ٹہرو! میں تمہارے لئے چائے لے کر آتی ہوں” ۔ ۔ ۔ “
ارے نہیں نہیں خالہ” ۔ ۔ میں اس سڑی ہوئی گرمی میں چائے کے نام سے ہی گھبرا گیا ۔”
میں بس چلتا ہوں ۔ ۔ آپ یہ سودا چیک کر لیں“ ۔ میں نے رسید انہیں تھما دی ۔”
اچھا” ۔ ۔زہرہ خالہ نے رسید تھام لی ۔ ’’ میں تو کہ رہی تھی کہ ایک کپ چائے ہی پی لیتے” ۔ ۔ “
پھر وہ جیسے چونک کر بولیں ’’ارے کاشف بیٹا! صبح جب تم باہر نکل گئے تو مجھے خیال آیا کہ بجلی کا بل تو کب سے آیا رکھا ہے ۔ ۔ ۔ اب گھر جاتے ہوئے اسے جمع کروا دو گے؟”وہ مجھے ملتجی نظروں سے دیکھ کر بولیں” ۔
کوئی بات نہیں خالہ ! آپ بل لا دیں میں ابھی جمع کروا دیتا ہوں” ۔ ۔ “
جب تک خالہ اندر سے بل اورپیسے نکال کر لائیں میں اخبار کے پیچھے پوشیدہ انکل شہزاد کو دیکھ کر خون کے گھونٹ پیتا رہا ۔
اب تمام انجان لوگ تو مجھ کو سخت بد لحاظ اور کام چور سمجھ رہے ہوں گے،کہ ایک ذرا سی گروسری لانے پر میں آپے سے باہر ہو جاتا ہوں ۔ ۔
ایسا نہیں ہے ۔ ۔ ۔ اصل وجہ کچھ اور ہے ۔ ۔ اور سال ہا سال سے ہے ۔
وہ کہتے ہیں نہ …’’ہوتا ہے میری جاں ہوتا ہے” ۔ ۔ ۔ ۔
تو جناب یہ گروسری یہ بل یہ پولٹری ۔ ۔ ۔ یہ کوئی آج کل یا چند مہینوں کی بات نہیں ہے ۔ ۔ بلکہ برسوں پرانی کہانی ہے ۔ ۔
زہرہ خالہ میری امی کی کزن ہوتی ہیں ۔ ۔ ان میں اور میری امی میں بڑی گہری دوستی ہے ۔ ان کے بچپن سے ۔ ان کی اور میری امی کی شادیاں بھی تقریباً آگے پیچھے ہی ہوئی تھیں ۔ ۔
امی بتاتی ہیں زہرہ خالہ اپنی نو جوانی میں بھی بلکل عام سی خاتون ہوا کرتی تھیں ۔ ۔ سانولی سلونی ،دبلی پتلی ۔ ۔ نہ جانے کس طرح ان کا جیک پاٹ نکل آیا(اس وقت تو ان کو ایسا ہی لگا ہو گا)کہ ان کے لئے انکل شہزاد کا رشتہ آگیا ۔
تھے۔ forest officer انکل شہزاد
Also Read:
اور بلا شک و شبہ بے حد ہینڈ سم تھے ۔ کسی حسین عورت کی شادی اگر کسی گئے گذرے سے ہو جائے تو اچھی نبھ ہی جاتی ہے ۔ لیکن جو اگر کوئی عام سی عورت کسی خوبصورت مرد کے پلے بندھ جائے تو بس جی ۔ ۔ ۔ ۔ ساری زندگی خطرے کی گھنٹی عورت کو اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہوتی ہے ۔
اور انکل شہزاد تو وجاہت کی سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑے تھے ۔ پھر خاندانی اور پڑھے لکھے ۔ ۔ ۔ زہرہ خالہ تو ان کی پجارن ہی بن
گیٰں ۔ ۔ جانے انکل شہزاد اس شادی پر راضی کیسے ہو گئے؟حالانکہ اس وقت کئی لڑکیاں دل ہی دل میں ان کی طلبگار تھیں ۔ بس ان کے ایک اشارے کی دیر تھی ۔ مگر انکل شہزاد کی اماں تو سیدھا ان کا شتہ زہرہ خالہ کے لئے لے گئی تھیں ۔
میری امی کو تو ساری زندگی شک رہا کہ شہزاد انکل کی اماں جان نے جان بوجھ کر ایک سے بڑھ کر ایک حور شمائل لڑکی کو چھوڑ کر زہرہ خالہ کا انتخاب اس لئے کیا تھا تاکہ وہ ان کے دل پر راج نہ کر سکیں اور ان کا بیٹا کبھی ان کے ہاتھوں سے نہ نکلے ۔ ۔ ۔
اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ بلکل ایسا ہی ہوا ۔ ۔ ۔ کونسے فرق کے ساتھ؟ ٹہریں میں آپ کو شروع سے بتاتا ہوں ۔ ۔ ۔
آج سے کوئی پچیس چھبیس سال پہلے انکل شہزاد کی شادی زہرہ خالہ سے قرار پا گئی ۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک خاصی بے جوڑ شادی تھی ۔
ٹھیک ٹھاک سانولی ،بے حد دبلی پتلی عام سی زہرہ خالہ اور بے حد خوبرو ،اسمارٹ انکل شہزاد ۔ ۔ وہ فاریسٹ آفیسر تھے،
مگر جب وہ اپنی
open jeep
میں جنگلات کے دوروں پر آتے جاتے تو بلکل ہیرو لگا کرتے تھے (وہ بھی ہالی وڈ کے)۔ ۔
شہزاد انکل نے اپنی بے جوڑ شادی پر دل میلا نہیں کیا ۔ ان کے پاس دل بہلانے کا بہت سامان موجود تھا ۔ ان کے کئی افیئرز پورے خاندان کے علم میں تھے ۔
وہ زیادہ تر تو گھر سے باہر رہتے ہی تھے،رفتہ رفتہ دوروں میں اور اضافہ ہوتا گیا ۔ اور انہوں نے جیسے گھر آنا چھوڑ ہی دیا ۔ چند سالوں میں ان کے یہاں دو بیٹیاں بھی ہو گیئں ۔ ۔ ایمن اور سمن ۔ ۔
مگر بچیوں کی پیدائش نے بھی ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں ڈالا ۔ میں اور ان کی بڑی بیٹی ایمن تقریباً ہم عمر تھے ۔ اس وقت ہم ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے ۔ میں اور امی اکثر زہرہ خالہ کی طرف چلے جاتے تھے ۔
Also Read:
شہزاد انکل تو کبھی گھر میں ہوتے ہی نہیں تھے ۔ ان کی اماں اس وقت حیات تھیں ۔ اپنے ہاتھوں سے جان بوجھ کر کرائی گئی اس شادی کا سارا الزام وہ انتہائی ڈھٹائی سے زہرہ خالہ پر ڈالا کرتی تھیں ۔ اور انکل شہزاد کے گھر سے لاتعلق رہنے کی وجہ زہرہ خالہ کی کم صورتی کو ٹہراتی تھیں ۔ ۔ ۔
کبھی کبھی الزامات کا رخ صرف دو بیٹیوں کی طرف مڑ جاتا ۔ ۔ جیسے بیٹا نہ ہو سکنے کی گناہگارصرف زہرہ خالہ ہوں ۔ ۔ زہرہ خالہ بے چاری اپنے نا کردہ گناہوں پر شرمندہ رہا کرتی تھیں اور چپکے چپکے آنسوبہاتی تھیں ۔
کبھی کبھار جب انکل شہزاد شاید منہ کا مزہ بدلنے کو گھر تشریف لاتے تو زہرہ خالہ کو ایک کنیز سے زیادہ حیثیت کبھی نہ دیتے تھے ۔ ان کا کام صرف کھانا رکھنے ۔ کپڑے دھونے اور استری کرنے کا رہ جاتا تھا ۔
مگر زہرہ خالہ اس پر بھی لاکھ لاکھ شکر بجا لاتیں کہ کم از کم ان کے ’’اپالو” ان کی نظروں کے سامنے تو ہیں ۔ ۔ اور دیوتا کی تو صرف پوجا کی جاتی ہے شکایت نہیں کی جاتی ۔ ۔
بہرحال ۔ ۔ وقت آگے بڑھا اور انکل شہزاد کی بے اعتنائی اور لا تعلقی باقائدہ ناپسندیدگی میں بدلنے لگی ۔ زہرہ خالہ کی ساس ببانگِ دہل انکل شہزاد کی دوسری شادی کا اعلان کرنے لگی تھیں ۔ ’’ائے میرا بچہ گھر کی شکل بھول گیا ہے ۔ ۔ “وہ ہر آنے جانے والے کے سامنے دہراتیں
وہ بھی کیا کرے ۔ ۔ ۔ “جب ایسی منحوس صورت عورت گھر میں موجود ہو ۔ ۔ ہونہہ ۔ ۔ سیاہ رات بن کر چھا گئی ہے میرے چاند جیسے بیٹے کی زندگی پر” ۔ ۔ ۔ ۔
نہ جانے ساسوں میں یہ کونسی حس پائی جاتی ہے ؟ سارے زمانے سے چھان پھٹک کر جس جس دلہن کو لے کر آتی ہیں چند دنوں میں ہی اس میں سارے زمانے کی برائیاں ڈھونڈ نکالتی ہیں ۔
خیر ۔ ۔ ۔ یہ تو انکل شہزاد کی اماں کے خیالات تھے ۔ ۔ نہ جانے کس طر ح اپنی بے لگام زبان اور اپنی بہو کے دل کو چھلنی کر دینے کے حساب کتاب انہوں نے خدا کے سامنے چکائے ہوں گے ۔ ۔ ۔ شکر ہے وہ ایک اور بوجھ اپنے ساتھ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ ۔ ۔
یعنی انکل شہزاد کی دوسری شادی کروانے کا بوجھ ۔ ۔ حالانکہ انہوں نے کم ہاتھ پیر نہیں مارے تھے ۔ ۔ مگر ۔ ۔ ۔ انکل شہزاد کے نصیب میں کوئی ’’با ضابطہ”دوسری شادی لکھی ہی نہیں گئی تھی ۔ ۔ ۔
لیکن ان کے نصیب میں کچھ عجیب و غریب اتفاقات ضرور درج تھے ۔ ۔ بے حد پراسرار ۔ ۔ بہت ہولناک ۔ ۔ ۔
ہوا کچھ یوں کہ کدھر گھر کی شکل ہی نہ دیکھتے تھے،اور کہاں وہ ایسے گھر لوٹے کہ پھر گھر سے قدم باہر نکالنا چھوڑ دیا ۔ ۔ کیسی آوارگی کیسی تفریح ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ کیسی نوکری ۔ ۔ ۔ سب چھوڑ چھاڑ دیا ۔ صرف ہر وقت زہرہ خالہ کو آوازیں لگاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ’’بس تم ہر وقت میرے پاس رہا کرو “۔ وہ ا لتجا کرتے ۔
زہرہ خالہ کی ساس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ۔ ۔ ’’ہونہہ کلمونہی نے ضرور کوئی جادو ٹونا کروایا ہے “۔ ۔ ان کو پکا یقین تھا ۔
مگر معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا ۔ انکل شہزاد نے درحقیقت نوکری ووکری سب چھوڑ دی ۔ ۔ کہیں بھی آنا جانا ترک کر دیا ۔ ۔ گھر کے سب سے اندرونی کمرے خوفزدہ بیٹھے رہتے ۔ صرف اس وقت تھوڑے مطمئن نظر آتے جب زہرہ خالہ ان کے پاس ہوتیں ۔ یہ صورتحال پورے خاندان والوں کے لئے تشویش کا باعث بن رہی تھی ۔ سب کے باربار پوچھنے پر انہوں نے ایک واقعہ سنایا ۔
پچھلے دنوں جب میرا تبادلہ ایک دور دراز علاقے میں ہوا تھا ،تو وہاں سے میرے ساتھ بھیانک واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔
میں ایک شام کسی سنسان جگہ سے گذر رہا تھا کہ میری جیپ ایک جھٹکے سے رک گئی ۔ میں نے اسے اسٹارٹ کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اسٹارٹ ہو کر نہیں دے رہی تھی ۔ ۔
میں جیپ سے باہر نکلا اور کسی مدد کی تلاش میں پیدل چلنے لگا ۔ شام کا اجالا رات کے اندھیرے میں بدل رہا تھا ۔ ۔ میں جانے کہاں نکل آیا تھا ۔ چلتے چلتے ایک عجیب احساس ہونے لگا ۔ ۔ ۔ جیسے میں اکیلا نہیں ہوں کوئی میرے ساتھ چل رہا ہے ۔ ۔
میں نے غور کیا تو مجھے باقائدہ کسی کے لباس کی سرسر اہٹ محسوس ہونے لگی جب میں رکتا تو آواز بھی رک جاتی ۔ ۔ میں گھبرا کر واپس مڑ گیا ۔ ۔ تیز تیز قدم اٹھا کر جیپ کے قریب پہنچ گیا ۔ ۔ تیز چلنے سے میں ہانپ گیا تھا ۔ مگر میرے ساتھ چلنے والی مخلوق بھی ایسی آوازیں نکال رہی تھی جیسے میرے پیچھے بھاگ کر و ہ بھی تھک گئی ہے ۔ شکر ہے کہ جیپ فوراً اسٹارٹ ہو گئی ۔ میں آندھی طوفان کی طرح گاڑی بھگاتا گھر آگیا ۔
مجھے رہنے کے لئے جو گھر دیا گیا تھا وہ بہت ہی پرانا تھا ۔ اس میں کمرے تو بے شمار تھے مگر وہ بہت خستہ حال تھا ۔ میرا ملازم وہیں کا رہنے والا تھا ۔ وہ میرے لئے کھانا بنا دیتا تھا اور صفائی وغیرہ کیا کرتا تھا ۔ میرے رہنے کے لیے اس نے دو کمرے صاف کر دئے تھے ۔ باقی گھر کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا تھا ۔ گھر کے تین طرف بہت بڑا لان تھا ۔ جو بلکل اجاڑ تھا،اس میں صر ف بے تحاشہ بڑھی ہوئی جھاڑیاں لگی ہوئی تھیں ۔
کئی درخت بھی لگے ہوئے تھے جن کو دیکھ کر اندازہ ہو سکتا تھا کہ بہت قدیم ہیں ۔ ۔ ۔
جب میں سونے لیٹا تو وہ پر اسرار واقعہ مجھے یاد آگیا ۔ ویسے تو ڈر اور خوف سے میرا بلکل واسطہ نہیں تھا مگر ایک عجیب کیفیت مجھے مسلسل محسوسہو رہی تھی ۔ جیسے کوئی میرے آس پاس موجود ہے ۔ ۔ کوئی انجانی چیز ۔ ۔ میرا ملازم میرے برابر کمرے میں سو رہا تھا ۔ میں نے سوچا اس کو آواز دوں کہ میرے کمرے میں نیچے اپنا بستر لگا لے ۔ ۔ مگر مجھے شرم محسوس ہونے لگی کہ وہ کیا سوچے گا کہ صاحب ڈر رہے ہیں ۔ ۔
نہ جانے کب مجھے نیند آگئی ۔ ۔ ۔ اور نہ جانے کس طرح آدھی رات کو میری آنکھ کھل گئی ۔ ۔ ۔ کمرے میں ایک عجیب بو پھیلی ہوئی تھی ۔ ۔ بہت ناگوار ۔ ۔ میں گھبرا کر اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ ۔ اچانک میرے کانوں سے ایک آواز ٹکرانے لگی ۔ ۔ ۔ ایک چرچراہٹ ۔ ۔ ۔ جیسے ۔ ۔ جیسے ۔ ۔ ۔ کوئی جھولا جھول رہا ہو ۔ ۔ ۔ اور جھولا بری طرح زنگ آلود ہو ۔ ۔ ۔
آواز رفتہ رفتہ تیز ہو رہی تھی اتنی تیز کہ کمرے میں دھمک ہونے لگی ۔ ۔ ۔ اسی طرح وہ بد بو بھی تیز ہو رہی تھی جیسے کچھ جل رہا ہو ۔ ۔ مجھے یاد آ یا یہ بدبو تو شام میں بھی محسوس ہوئی تھی جب میری جیپ بند ہو گئی تھی ۔ ۔ ۔ میں ڈر سے کانپنے لگا ۔ ۔ کہ اچانک لاءٹ بند ہو گئی ۔ ۔ کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا ۔ ۔ ۔ ’’شفیق ۔ ۔ ۔ “ میں نے ملازم کو آوا ز دینے کی کوشش کی مگر میری آواز کمرے میں ہی گونج کر رہ گئی ۔
ہمت کر کے میں بستر سے نکلا ۔ ۔ ٹٹول کر کھڑکی تک پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ ڈرتے ڈرتے پردہ سرکا یا ۔ ۔ اور ۔ ۔ اف ۔ ۔ میرا دل خوف سے پھٹنے والا ہو گیا ۔ ۔ ۔ سامنے اجاڑ،بیابان لان میں ۔ ۔ اس آدھی رات کو مکمل اندھیرے میں ڈوبے اس پراسرار گھر میں ۔ ۔ چاند کی مدہم روشنی میں ۔ ۔ وہ جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ ۔ لمبا سفید لباس پہنے اپنے سارے لمبے بال آگے ا پنے چہرے پر ڈالے ۔ ۔ ۔
سر جھکائے وہ لمبے لمبے جھولے لے رہی تھی ۔ ۔ ۔ میں تھر تھر کانپ رہا تھا مجھ میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ پردہ واپس آگے کر دوں ۔ ۔ اچانک جھولا رک گیا ۔ ۔ ۔ مگر تیز چر چراہٹ کی آواز ابھی بھی آ رہی تھی ۔ ۔ ۔ جھولے پر بیٹھی ہوئی عورت نے اپنا جھکا ہوا سر آہستہ آہستہ اوپر کرنا شروع کیا ۔ ۔ ۔ جیسے کوئی سلو موشن کا سین چل رہا ہو ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بالوں کی اوٹ میں سے ۔ ۔ اس کی آنکھیں ۔ ۔ سرخ ،خوفناک آنکھیں مجھ پر جم گئیں ۔ ۔ اس کے سیاہ چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہو گئی ۔ ۔ ۔ وارننگ دیتی ہوئی مسکراہٹ ۔ ۔ چیلنج دیتی ہوئی مسکراہٹ ۔ ۔
شاید میں بے ہوش ہو گیا تھا ۔ ۔ صبح اٹھتے ہی میں نے اپنا سامان الٹا سیدھا پیک کر لیا ۔ ۔ شفیق میرے اس اچانک فیصلے پر حیران رہ گیا ۔ ۔
آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہو گی صاحب!ادھر کوئی آسیب واسیب نہیں ہے ، میں نے کبھی ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی” ۔ ۔ “
وہ اس لئے کہ بھوت اور چڑیلیں رات کے ہم سفر ہوتے ہیں ۔ ۔ اور تم رات کو گدھے اور گھوڑے بیچ کر سو رہے ہوتے ہو ۔ ۔ میں نے تلخی سے کہا ۔ ۔ ’’پوری رات ایک چڑیل لان میں پکنک مناتی رہی ،جھولے جھولتی رہی تمہیں پتا نہیں چلا” ۔ ۔ ؟
چڑیل؟ ۔ ۔ جھولا ؟کون سا جھولا صاحب باہر تو کہیں کوئی جھولا نہیں ہے “۔ ۔ شفیق حیران رہ گیا ۔ ۔
اچھا ۔ ۔ کوئی جھولا نہیں ہے؟تو یہ کیا ہے؟” میں اس کو بازو سے گھسیٹ کر کھڑکی کے پاس لے آیا” ۔ اور پردہ سرکا دیا ۔ ۔
اور ۔ ۔ مجھ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ ۔ لان دور تک بلکل خالی پڑا تھا وہاں کوئی جھولا نہیں تھا ۔ ۔ ۔
دیکھا صاحب”!”شفیق نے فاتحانہ انداز میں کہا ’’ضرور آپ نے کوئی خواب دیکھا ہو گا” ۔ ۔ ”
مگر مجھے سو فیصد یقین تھا کہ میرا ساتھ پیش آنے والے واقعات وہم نہیں ہیں ۔ میں نے شفیق کی ایک نہ سنی اور واپسی کے لئے نکل گیا ۔ ۔ حالانکہ سورج کی تیز روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی مگرمیرا ڈر دور ہو کر نہیں دے رہا تھا ۔ ۔
بار بار وہ سفید لباس والی مخلوق اور وہ جھولا آنکھوں کے آگے آرہا تھا ۔ ۔ اور وہ منظر جب وہ عورت آہستہ آہستہ سر اٹھا رہی تھی ۔ ۔ ۔
اف اس کا بھیانک چہرہ مجھے یاد آگیا ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ جیپ ایک جھٹکے سے رک گئی ۔ ۔ اوہ صبح میں جلدی میں ریڈی ایٹر میں پانی ڈالنا بھول گیا ۔ ۔ مجھے خیال آیا ۔ ۔ میں نے تو صبح جلدی کی وجہ سے ایک کپ چائے بھی نہیں پی تھی ۔ ۔ میں جیپ سے باہر نکل آیا ۔ ۔ “شاید کوئی مدد مل جائے” ۔ ۔
“ارے یہ تو وہی جگہ ہے ؛ تھوڑی دور چل کر مجھے یاد آگیا ۔ جہاں میں کل بھٹک گیا تھا”
مجھے ایک دم ڈر لگنے لگا میں جلدی سے بھاگ کر جیپ میں آ کر بیٹھ گیا ۔ ۔ پھر سے اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی ۔ ۔ اوروہ اسٹارٹ ہو گئی ۔ ۔ مگر ۔ ۔ اچانک گاڑی میں ایک تیز بو پھیل گئی ۔ ۔ کچھ جلنے کی بد بو ۔ ۔ اس بو کو اب میں پہچاننے لگا تھا ۔ ۔ میری دل کی دھڑکن بری طرح تیز ہو گئی ۔ ۔ وہ ۔ ۔ میرے برابر بیٹھی ہوئی تھی ۔ ۔ اسی طرح لمبے سفید لبادے میں ۔ ۔ بال آگے چہرے پر ڈالے ۔ ۔
میں زندگی میں پہلی مرتبہ زور زور سے چیخنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔
ڈرو نہیں ۔ ۔ میں تم کو کچھ نہیں کہوں گی ۔ ۔ “اس کی منمناتی ہوئی آواز سنائی دی ۔ ۔ ’’ میں تم پر عاشق ہو گئی ہوں جب سے تم کو دیکھا ہے” ۔ ۔
مگر میں کیسے نہ ڈرتا؟اس کی آواز بھی اس کی صورت کی طرح بہت ڈراءونی تھی ۔ ۔
دیکھو ۔ ۔ تم میرا پیچھا چھوڑ دو ۔ ۔ میں تم سے ڈر کر ہی واپس جا رہا ہوں ۔ ۔ خدا کے لیے یہاں سے چلی جاءو”میں رونے والا ہو گیا” ۔
پیچھا تو اب میں کبھی نہیں چھوڑوں گی” ۔ ۔”
اس کی خوفناک مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔ ۔ اس کی آنکھیں غصے میں بھرگئیں ۔ ۔
میں تم کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاءوں گی ،کہیں نہیں جاءوں گی” ۔ ۔”
نہ جانے کیسے میں نے گھر تک کا سفر طے کیا ۔ ۔ وہ اسی طرح میرے برابر بیٹھی رہی ۔ ۔ گھر پہنچ کر وہ ایک دم غائب ہو گئی ۔ ۔
میں نے کچھ سکون محسوس کیا ۔ ۔ مگر وہ تو ۔ ۔ وہیں تھی ۔ ۔ میرے ساتھ ۔ ۔ صرف وہ کسی کو نظر نہیں آرہی تھی ۔ ۔ مگر جیسے ہی میں اکیلا ہوتا وہ آ جاتی ۔ ۔ مسکراتے ہوئے ۔ ۔ بلا وجہ قہقہے لگاتے ہوئے ۔ ۔
وہ ایک پل کو میری جان نہیں چھوڑتی تھی ۔ ۔ جب میں واش روم جاتا تو باہر دروازے سے لگ کر کھڑی ہوتی ۔ ۔ وہ میرے سوا کسی کو نہ نظر آتی تھی نہ ہی اس کی آواز کسی کو سنائی دیتی تھی ۔ ۔
آرام سے کمرے کے کسی کونے میں موجود اپنے بالوں کی اوٹ سے مجھے دیکھتی رہتی تھی ۔ ۔ اور کبھی کبھی تو ۔ ۔ رات کو میری آنکھ کھلتی تو چھت سے الٹی لٹکی میرے اوپر جھکی ہوتی تھی ۔ ۔ ۔ اس نے مجھے اتنا خوفزدہ کر دیا کہ ڈر سے میرا دل بے حد کمزور ہو گیا ۔ ۔ صرف اس وقت وہ چلی جاتی تھی جب میری بیوی میرے ساتھ ہوتی تھی ۔ ۔ “رقابت کی آگ اس چڑیل سے بلکل برداشت نہیں ہوتی تھی” ۔ ۔
انکل شہزاد نے یہ سارا قصہ تفصیل سے اور ڈر سے کانپتے ہوئے سنا دیا تھا ۔ ۔
قسمت کے کھیل کتنے نرالے ہوتے ہیں ۔ ۔ ساری زندگی حسین خواتین سے دل لگی کرنے والے انکل شہزاد ۔ ۔ ایک سچی عاشق کے ہاتھوں دل کے مریض بن گئے اب کیا کیا جائے جوعاشق ایک چڑیل تھی ۔ ۔ ۔
ایک عرصے تک جس بیوی کے سائے سے بچتے تھے اچانک اس کے آنچل میں پناہ مانگنے لگے ۔ ۔
خیر نہ جانے یہ عجیب،پر اسرار کھیل کب تک چلتا رہا ۔ ۔ ۔ انکل نے نوکری چھوڑ دی ۔ ۔ کہیں آنا جانا بلکل ترک کر دیا ۔ ۔ پیلا زرد چہرہ لئے گھر کے کسی کونے میں اکڑوں بیٹھے تھر تھر کانپ رہے ہوتے ۔ ۔
پرانے زمانے کی چند خوبصورت روایتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھر زیادہ تر ذاتی ہوا کرتے تھے ۔ ۔ شکر ہوا کہ انکل شہزاد کا گھر بھی ان کے ابا کا بنوایا ہوا تھا ۔ ۔ جب انکل کی نوکری چھوٹ گئی (یا انہوں نے چھوڑ دی)تو چند دنوں بعد گھر میں کھانے کے لالے پڑ گئے ۔ ۔
آخر ان کی اماں جان نے کچھ اضافے کروا کر اوپر کی منزل کرائے پر اٹھا دی ۔ ۔ جیسے تیسے گذارہ ہو نے لگا ۔ ۔ زہرہ خالہ کی نہ تو اتنی تعلیم تھی نہ ہی تو اتنا اعتماد کہ کہیں نوکری کر لیتیں ۔ اوپر سے دونوں بچیاں بھی گھر کے اتنے عجیب اور گھٹے ہوئے ماحول کی وجہ سے اتنی کم ہمت اور کم اعتماد نکلیں کہ ٹھیک سے بات تک نہیں کر پاتی تھیں ۔ ۔
ڈھیر سارے سال گذرے ۔ ۔ شہزاد انکل کی اماں آخر کار دنیا چھوڑ گیءں ۔ ۔ بچیاں بڑی ہو گئیں ۔ ۔ شہزاد انکل کے اوپر عاشق مخلوق کا عشقِ لاحاصل بھی آخر مدہم ہو گیا ۔ ۔ ۔ اب وہ ہر وقت ان کے پاس نہیں ہوتی تھی بلکہ کبھی کبھار اپنے محبوب کے درشن کرنے تشریف لایا کرتی تھی ۔ ۔
خیر یہ ساری رام کتھا تو وہ ہے جو میں اپنے بچپن سے سنتا چلا آیا ہوں ۔ ۔ مگر اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں ۔ ۔ نہ تو مجھے کسی چڑیل پر یقین تھا نہ انکل شہزاد کے اس پرو پیگنڈے پر کہ وہ اس قدر لاچار اور کمزور ہو چکے ہیں کہ کوئی کام ہی نہیں کر سکتے ۔ ۔
نہ تو نوکری نہ ہی کوئی گھر کے کام ۔ ۔ میں نے سالوں سے ان کو گھر میں موجود اخبار اور کتابوں کا مطالعہ ہی فرماتے دیکھا تھا ۔ رات کو ٹی وی کے آگے براجمان ہو جاتے ۔ لوگ کہتے ہیں ہیں کہ ان کی حالت برسوں بہت بری رہی ہے ۔ ۔ مگر اب تو وہ بلکل صحت مند لگتے تھے ہر اعتبار سے ۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ شدید خوفزدہ رہ رہ کر ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور وہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتے ۔ ۔
میں برسوں سے ان کے گھر کی ہر ڈیوٹی دیتا آرہا ہوں ۔ ان کے گھر کا ہر چھوٹا بڑا کام میری ذمہ داری بنا دیا گیا ہے ۔ ۔
خیر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ۔ میں ان کے بیٹے جیسا ہی ہوں ۔ ۔ مگر انکل شہزاداور ان کا کبھی کوئی کام نہ کرنا محض ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ وہ اپنی ہڈ حرامی کواس ڈرامے میں چھپاتے آئے ہیں مجھے پکا یقین ہے ۔ ۔
ہو سکتا ہے برسوں پہلے کوئی ہلکا پھلکا واقعہ پیش آگیا ہوجیسے کہ اکثر لوگوں کے ساتھ پیش آجاتا ہے مگر اتنے سالوں تک مسلسل اسی کیفیت میں رہنا ۔ ۔ نا ممکن ۔ ۔ ۔
ہیلو ۔ ۔ کاشف بھائی”سمن کی سخت گھبرائی ہوئی آواز سے میں بھی گھبرا گیا” ۔
’’ہاں سمن!کیا ہوا ہے خیریت تو ہے؟”
وہ کاشف بھائی!امی کی طبیعت بہت خراب ہے ،بے ہوش ہو گئی ہیں ۔” ابو نے کہا ہے آپ کو کہوں ڈاکٹر کو لے آئیں” ۔
میں زہرہ خالہ کی طبیعت کا سن کر خود بھی پریشان ہو گیا تھا مگر ابو کا نام سن کر بری طرح تپ گیا ۔ ۔ ’’تو موصوف ڈاکٹر کو بلانے کی زحمت بھی نہیں کریں گے “۔ ۔ ہونہہ مفت کا نوکر جو ملا ہوا ہے ۔ ۔ “
خیر خود پر کنٹرول کر کے سمن کو تسلی دی ۔ ۔
رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے ۔ اپنے دوست اور پڑوسی ڈاکٹر نعمان کو نیند سے اٹھا کر خالہ کے گھر لے گیا ۔ ۔ شکر ہے خطرے کی بات نہیں تھی ان کا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا تھا ۔ ۔ (ظاہر ہے ایسے شوہر کے ساتھ زندگی گذار کر بلڈ پریشر تو ہائی ہونا ہی تھا)آج پتا نہیں کیوں مجھے انکل پر ہمیشہ سے زیادہ غصہ آرہا تھا ۔ ۔ بے چاری خالہ کتنی کمزور ہو گئیں تھیں اور ایمن اور سمن ۔ ۔ ڈری سہمی ۔ ۔ زرد رنگت والی لڑکیاں ۔ ۔ ان میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ بیمار ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتیں ۔ ۔ سر پر باپ کے موجود ہوتے ہوئے ۔ ۔
کیا عمر ہو گی اس وقت انکل کی ؟ میں نے دل میں حساب لگایا52 یا53 سال وہ بلکل جوان نظر آتے تھے ۔ بقول ان کے وہ دل کے مریض بن چکے تھے مگر وہ ابھی بھی ایک اشارے سے کسی کو بھی دردِدل میں مبتلا کر سکتے تھے ۔
میں نے ایک زہریلی نگاہ ان پر ڈالی،انکے صرف چند بال سفید ہوئے تھے ،چہرے پر کوئی شکن نہیں تھی ۔ میرے ساتھ بیٹھے وہ یقینا میرے بڑے بھائی لگ رہے ہوں گے ۔ ۔ مجھ سے کہیں زیادہ وجیہہ بڑے بھائی ۔ ۔ ۔
کاشف بھائی!آپ آج یہیں رک جائیں ۔ ۔ پلیز امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ ۔ ڈر لگ رہا ہے “۔ ۔ سمن نے التجا کی ۔ ۔ “
Also Read:
میں ویسے تو اکثر یہاں آتا جاتا رہتا تھا ۔ ۔ مگر رات کو رکنا مناسب نہیں لگ رہا تھا ۔ ۔ مگر سمن کے پیلے پڑے چہرے کو دیکھ کر مجھے ترس آگیا ۔
چلو ٹھیک ہے، میں امی کو فون کر کے بتا دیتا ہوں” ۔ ۔سمن مطمئن ہو گئی ۔ ۔”
میرا بستر انکل شہزاد کے کمرے میں لگا دیا گیا ۔ میں نے کوفت محسوس تو کی مگر سارے دن کا تھکا ہوا تھا اور اس وقت رات کے تین بج رہے تھے میں لیٹتے ہی سو گیا ۔ ۔
مگر ۔ ۔ رات کو اچانک میری آنکھ کھل گئی ۔ ۔ جیسے ہوا کا تیز جھونکا میرے چہرے سے ٹکرا گیا ہو ۔ ۔ ایک عجیب بو محسوس ہو رہی تھی ۔ ۔ جیسے ۔ ۔ جیسے ۔ ۔ کچھ جل رہا ہو ۔ ۔ پھر ایک آواز کمرے میں گونجنے لگی ۔ ۔ چر ۔ ۔ چر ۔ ۔ جیسے کوئی جھولا جھول رہا ہو ۔ ۔ زنگ آلود جھولا ۔ ۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر میرا جسم جیسے پتھر کا بن گیا تھا ۔ ۔
جھولے کی آواز تیز ہونے لگی ۔ ۔ میں نے آنکھیں پوری کھول دیں ۔ ۔ کمرے میں مدہم روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ ۔ اس ملگجی روشنی میں کوئی اندر داخل ہو گیا ۔ ۔ سفید لباس میں ۔ ۔ بال آگے ڈالے ۔ ۔ وہ آہستہ آہستہ انکل شہزاد کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ ۔
میرا دل خوف سے پھٹنے لگا ۔ ۔ وہ انکل کے قدموں میں بیٹھ گئی،،ان کے پیر سہلانے لگی ۔ ۔ ۔ انکل نیند میں کسمسائے ۔ ۔ اس نے آہستہ سے اپنے منہ سے بال ہٹا دئے ۔ ۔ ۔ انکل شہزاد نے ساری زندگی اس کے بھیانک چہرے کا جو نقشہ کھینچا تھا وہ تو کچھ بھی نہیں تھا ۔ ۔ وہ کہیں زیادہ مکروہ تھی ۔ ۔ اچانک اس کی سرخ آنکھیں مجھ سے ٹکرائیں ۔ ۔ میں ڈر سے کانپ رہا تھا ۔ ۔ وہ مسکرانے لگی ۔ ۔ ۔ پھر ۔ ۔ پھر ۔ ۔ مجھ پر نظر جمائے ہوئے ۔ ۔ ۔
اس نے اپنی کالی سیاہ زبان نکالی اور انکل کے قدموں پر رکھ دی ۔ ۔ ۔
Also Read:
exciting
Thank you saad.
In complete story ha or writer ka andaz tareer m jaaan Ni ha
Thank you so much Rizwan for commenting on our story. Actually, in horror or mysterious stories, generally, some writers leave some vacuum in the end, so that, maybe in the future, if they want to write the “part 2”, they can extend it from where they left. Our story “Phir ek raat” has one record that it had been copied a hundred times on different platforms. The majority of people liked it a lot, and few think it is incomplete, as you did. Maybe we will change its end a little bit to satisfy those who think it is incomplete. We will be adding more exciting stories to make you people happy. Just subscribe to our website and youtbe channel.
Bht achi stroy lagi MashaAllah
Hamari stories pasand karne ka bht shukriya Yasin. Buht jald new urdu horror stories le k aenge. Pls subscribe our website and youtube channel for updates.
To good story madam nice
Thank you Arsalan for liking our story, we will be adding more stories soon. Pls subscribe our website and youtube channel. Thanks a lot.
PLEASE IS STORY KA NEXT PART SEND KR DEN MUJY PLEASE
Thank you Iftikhar Sons. Hamari urdu horror story “phir ek raat” ko pasand karne ka be-hud shukriya.
Story ka second part nahi hai. Kahani wahan khatam hojati hai jahan chudail apni zaban shehzad uncle k qadmo per rakh kar Kashif ko ye samjhati hai k “Yes I Exist”. Kion k Kashif hamesha uncle shehzad ko jhoota samjhta tha. Chudail, Kashif ko ye samjhati hai k na sirf wo wajood rakhti hai, uncle shehzad k peeche hai, or unka peecha nahi chorre gi….