Urdu Hindi Horror Story: The Ghost Next Door
شہر سے کئی میل دور مضافات کی طرف ایک اکیلی سڑک اونچائی پر جاتی ہے ۔ ۔ اس سڑک کے اطراف میں لمبے لمبے ،درخت ہی درخت ہیں ۔ بہت ہی پرانے اور قدیم درخت ۔ ۔ بڑے پراسرار ۔ ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے ہوں ۔ ۔ اور مسکراتے ہوں ۔ ۔ کافی اوپر تک جا کر ایک گھر کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں ۔ ۔ گھر نہیں ایک بڑا سا محل ۔ ۔ ’’گرین پیلس‘‘بہت پرانا ۔ ۔ کئی سو سال پرانا ۔ ۔
ہزاروں گز کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ گھر بلکل خالی ہے ۔ ۔ شاید ہمیشہ سے ۔ ۔ اس میں کوئی نہیں رہتا ہے ۔ ۔ کوئی رہ ہی نہیں سکتا ہے ۔ ۔ کیوں ؟
کیوں کہ یہ محل ہانٹڈ ہے ۔ ۔ ۔ ’’آ سیب زدہ ‘‘۔ ۔
Also Read:
َََََََ
بہت سخت سردی تھی ۔ ۔ شدید ۔ ۔ اتنی سخت سردی شاید ڈیڑھ یا دو سو سال پہلے کبھی پڑی تھی ۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں آرہا تھا ۔ ۔ میں کافی پھینٹتے ہوئے یاد کر رہا تھا ۔ ۔ اتنی سردی تھی کہ میرے لمبے لمبے ڈریکولا کو مات دیتے دانت باقائدہ بج رہے تھے ۔
پرانا ،قدیم ،ہزاروں کے رقبے پر پھیلا ہوا میرا بھیانک ،ہانٹڈ پیلس حسبِ معمول اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اس بڑے سے گارڈن اور پیلس میں صرف ایک فرد رہا کرتا تھا ۔ ۔ کون ؟
’’ میں ۔ ۔ ‘‘اور رہتا بھی کون؟
اور سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے بلکل پسند نہیں ہے کہ کوئی میرے گھر اور معمولات میں دخل اندازی کرے ۔ ۔
دراصل میں ایک بہت ہی تنہائی پسند ۔ ۔ بھوت ۔ ۔ جی ہاں بھوت ہوں ۔ ۔
ویسے تو مجھے سردیاں بڑی پسند ہیں ۔ ۔ سردیوں میں دیر تک جاگ کر ٹی وی دیکھنا اور کافی پینا مجھے بڑہ مزہ دیتا ہے ۔
اس وقت میں بڑے اچھے موڈ میں اپنے دو فٹ لمبے مگ میں کافی بنا رہا تھا ۔
ابھی میرا پسندیدہ ٹی وی شو
’’Dinner with the Devil‘‘
شروع ہونے ہی والا تھا ۔ یہ میرا بہت فیورٹ شو تھا اور میں سارا دن اس کا انتطار کرتا تھا ۔ کہ اچانک ۔ ۔ میرا سارا موڈ غارت ہو گیا ۔
پیلس کے بڑے سے سیاہ گیٹ کو کھول کر کوئی اندر داخل ہو رہا تھا ۔
میں نے بالکنی سے نیچے جھانکا ۔ ۔
Also Read:
لمبا کالا کوٹ اور فل بوٹ پہنے وہ کوئی نوجوان لڑکا تھا ۔ ۔
اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ جلا رکھی تھی اور گارڈن کا جائزہ لے رہا تھا ۔
منحوس کہیں کا‘‘ ۔ ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا ۔’’
ایسے ٹارچ کی لاءٹ مار مار کر میرے محل کا جائزہ لے رہا تھا جیسے اس کے باپ نے یہ جائداد اس کے نام لکھ دی ہو ۔
ٹہر جا بیٹا ۔ ۔ تجھے مزہ چکھاتا ہوں ‘‘۔ ۔ میں بڑبڑایا ۔ ۔’’
اور وہ شاید مزہ چکھنے کو بلکل تیار تھا،اس لئے پیلس کے اندر داخل ہو گیا ۔
میں اس کی ہمت پر حیران ہو رہا تھا ۔ ۔ میرے پیلس کی دہشت دور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ لوگ دن میں بھی اس کے قریب تک سے گذرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے ۔ ۔ رات میں تو اس کی خوفناکی کئی گنا بڑھ جاتی تھی ۔ اس شہر کا سب سے زیادہ’’آسیب زدہ گھر‘‘میرے محل کو کہا جانے لگا تھا ۔
اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بڑا سارا بیگ ایک طرف رکھ دیا ۔ اور اس میں سے چارجنگ لاءٹ نکال کر جلا لی ۔ اب مجھے اس کی شکل صاف نظر آ رہی تھی ۔
وہ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا اور ڈری ہوئی نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ ۔ ۔
میں ابھی تک بلکل خاموش تھا ۔ ۔ ’’پہلے ذرا اس کے اس وقت ادھر آنے کی وجہ جان لوں ۔ ۔ ‘‘ میں نے سوچا
اچانک اس کے موبائل پر کال آنے لگی ۔ ۔
اس نے لپک کر فون اٹھا لیا ۔ ۔
ہیلو ۔ ۔ ہاں انیتا ! میں آ گیا ہوں ۔ ۔ ہاں ہاں میں سچ بول رہا ہوں ۔ ۔ میں پیلس میں ہی ہوں ۔ ۔ ہاں اندر ۔ ۔
تم ویڈیو آن کر لو اگر یقین نہیں آ رہا ہے تو ‘‘۔ ۔
دیکھو انیتا میں اپنی جان پر کھیل رہا ہوں ۔ ۔ تم اپنا وعدہ بھولو گی تو نہیں ؟‘‘وہ بڑی آ س سے پوچھ رہا تھا ۔
اوہ”۔ ۔ معاملہ میری سمجھ میں آ گیا تھا ۔”
وہ کسی سے شرط لگا کر اس ہانٹڈ پیلس میں آیا تھا ۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا ۔ ۔ ایسا پہلے بھی ہو چکا تھا ۔ ۔ کئی لوگ ۔ ۔ لڑکے لڑکیاں میرے گھر میں وزٹ کیا کرتے تھے ۔
مگر اس وقت میرا میٹر گھوم گیا ۔
کم بختوں نے میرے آسیب زدہ گھر کو مذاق بنا لیا تھا ۔ ۔ جسے دیکھو شرط لگا کر ادھر گھس جاتا تھا ۔
ویسے تو میں گھومنے پھرنے آنے والوں کو زیادہ تنگ نہیں کیا کرتا تھا ۔ ۔ بس ہلکی پھلکی شرارات ۔ ۔ جیسے ان کے قریب سے اپنا سایہ دکھا کر گذر جاتا تھا ۔ یا پھر ان کا سامان وغیرہ بکھرا دیتا تھا ۔ ۔ یا پھر سامان کی جگہ بدل کر پنکھے یا درخت پر لٹکا دیتا تھا ۔ ۔ وغیرہ ۔
لیکن جو کوئی مجھے
dare
دیتا یعنی ’’آ بھوت مجھے مار ‘‘تو پھر بس ۔ ۔
دیکھیں ہر بزنس اور ہر کھیل کے چند اصول ہوتے ہیں ۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ لوگ دن کے وقت میرے بہترین پیلس میں آئیں گھو میں پھریں ۔ ۔ تصویریں بنائیں اور اپنے گھروں کو لوٹ جائیں ۔ لیکن اگر کوئی غیر شریفانہ طور پر آ دھی رات کو شرط لگا لگا کر میرے گھر میں گھسے اور میری تنہائی میں مخل ہو مجھے ہر گز برداشت نہیں ہے ۔
اور مجھے ہی کیا کوئی بھی چڑیل چاہے وہ کتنی بھی شرمیلی ہو یا کوئی بھوت چاہے وہ کتنا ہی خاموش مزاج کیوں نہ ہو وہ ایسے شر انگیز نوجوانوں کو مزہ چکھا دیتا ہے ۔
کوفت سے میرا برا حال تھا ۔ ۔ اس لڑکے نے میرے کافی کے مگ اور میرے ٹی وی پروگرام کا سارا مزہ غارت کر دیا تھا ۔
اور تو اور کم بخت نے اپنا سامان بھی میرے ہی کمرے میں لا کر رکھ دیا تھا ۔ اتنا بڑا گھر ۔ ۔ جس میں اتنے سارے بیڈ رومز تھے جن کی تعداد مجھے بھی ٹھیک سے یاد نہیں تھی ۔ ۔ مگر اس کو اسی کمرے میں مرنا تھا ۔
میں چھت سے معلق بڑے سے بیڈ پر لیٹا اپنا خون کھولا رہا تھا ۔
(اب آپ لوگوں کو یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ وہ مجھے دیکھ نہیں سکتا تھا ۔ جب تک میں خود نہ چاہوں )
میں چاہتا تو اس لڑکے کو اس کے سامان کے ساتھ اٹھا کر گھر سے باہر پھینک سکتا تھا ۔ مگر ۔ ۔ میں ایک اعلی ظرف اور خاندانی بھوت ہوں ۔ میں نے کبھی کسی کو ہاتھ نہیں لگایا صرف ڈرا کر ہی بھگا دیتا ہوں ۔
میں نے جھانک کر دیکھا ۔ وہ انتہائی انہماک سے اپنے موبائیل پر کسی کی تصویر دیکھ رہا تھا ۔ ۔ کسی لڑکی کی ۔ ۔
Also Read:
میں نے غور سے جھانکا مگر لڑکی کی شکل مجھے ٹھیک سے نظر نہیں آئی ۔ میں اپنا چشمہ ٹی وی لاءونج میں بھول گیا تھا ۔ دراصل دو سو سال کی عمر سے میری نظر کمزور ہو گئی تھی ۔ مجھے دور کی چیزیں زیادہ صاف نظر نہیں آ تی تھیں ۔ شاید یہ میرے زیادہ ٹی وی دیکھنے کا نتیجہ تھا ۔ ورنہ اس کم عمری میں آنکھیں کمزور جانے کی اور تو کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔
پھر مجھے ہلکی سی شرارت سوجھی ۔ ۔
میں اپنے بستر پر آگے کی طرف جھکا ۔ ۔
\ خوش آمدید ۔ ۔ اے نوجوان” ۔ ۔”
ہوں” ۔ ۔ وہ بری طرح ڈر گیا ۔ ۔”
کون ۔ ۔ کون ہے؟ “وہ اِدھر اُدھردیکھنے لگا ۔”
میں نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی ۔
شب بخیر” ۔ ۔”
اف ” حماد نے سر تک کمبل اوڑھ لیا ۔”
اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ۔ ۔
یہ محل تو سچ مچ آسیب زدہ ہے “۔ وہ سوچ رہا تھا ۔”
کیسے گذریں گے یہ تین دن اور تین راتیں” ۔ ۔”
’’اف انیتا! تم کو بھی اتنی کڑی شرط ہی لگانی تھی شادی کے لئے ۔ ۔ ‘‘وہ بے بسی سے بڑبڑایا ۔
اور کیسی شادی ۔ ۔ اگر جان ہی نہ بچی تو پھر” ۔ ۔ ؟”
’’ہائے اللہ ۔ ۔ ‘‘
دیکھو حماد ! میں کیسے یقین کر لوں کہ تم مجھ سے سچی محبت کرتے ہو؟‘‘انیتا نے اپنے ریشمین بالوں کو جھٹک کر”
بڑی ادا سے پوچھا تھا ۔
تو نہ کرو یقین ۔ ۔ بس مجھ سے شادی کر لو ۔ ۔ آہستہ آہستہ تمہیں میری سچی محبت پر اعتبار آہی جائے گا ۔ ۔ حماد گڑ گڑایا ۔
ارے واہ! یہ کیا بات ہوئی؟‘‘انیتا نے اسے گھورا ۔”
اچھا تو میں اپنی ساری جائداد تمہارے نام لکھ دیتا ہوں “۔”
کون سی جائداد؟اچھا وہ تمہارا تین کمروں کا فلیٹ ۔ وہ لکھ دو گے میرے نام ؟جس میں تمہاری امی اور بہن بھی رہتے ہیں ۔ انیتا طنزیہ انداز میں بولی ۔
ہاں ہاں تو بہن کی تو شادی ہونے والی ہے پھر رہ گئے ہم اور تم” ۔ ۔ تو جائداد تو تمہاری ہو ہی گئی نہ ۔ ؟”
ہوں ایسے نہیں مزہ نہیں آرہا ۔ کوئی ایڈونچر ہونا چاہئے “۔ ۔ ‘‘انیتا اسے گہری نگاہوں سے جیسے تول رہی تھی ۔”
ہاں آئیڈیا “۔ ۔ اگر تم مجھ سے سچی محبت کرتے ہو تو تم کو میری ایک شرط پوری کرنی پڑے گی ۔ ۔ تم کو گرین”
پیلس میں جانا ہو گا ۔
کیا ۔ ۔ گرین پیلس؟؟ ۔ وہ تو آسیب زدہ ہے ۔ اور میں وہاں جا کر کروں گا کیا ۔ حماد انوکھی شرط سن کر اچھل پڑا ۔
بس محبت کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ ۔ صبا نے مذاق اڑایا ۔
اگر تم کو مجھ سے شادی کرنی ہے تو تم گرین پیلس جاءو گے اور وہاں تین دن اور تین راتیں قیام کرو گے ۔ سمجھے پورے تین دن ۔ ۔ اگر تم صحیح سلامت واپس آ گئے تو میں تم سے شادی کر لوں گی ۔ ۔ فوراً ۔ ۔ منظور؟
آہ ۔ ۔ اچھا ۔ ۔ منظور “۔ ۔”
صبح میری آنکھ اس کی کھٹ پٹ سے کھل گئی ۔
وہ اپنے بیگ سے جانے کیا کیا برامد کر رہا تھا ۔
افوہ! ‘‘ میں نے سخت کوفت محسوس کی ۔ میں دیر تک سونے کا عادی تھا ۔ اس بن بلائے مہمان نے تو میرے”
سارے معمولات کا جیسے بیڑہ غرق کر دیا تھا ۔ وہ اپنے بیگ سے مختلف سامان نکال کر اسے ایسے ڈریسنگ ٹیبل پر سجا رہا تھا جیسے یہ جگہ اس نے خرید ہی تولی ہے ۔
پرفیوم،کریم،شیمپو ،ہیئربرش ۔ ۔ وہ ٹوتھ پیسٹ اور برش اٹھا کر باتھ روم میں گھس گیا ۔
اف “۔ ۔ میں دانت پیس کر رہ گیا ۔”
کیا مصیبت ہے ۔ ۔ مجھے بھی باتھ روم جانا تھا ۔ اب اپنے ہی باتھ روم میں جانے کے لئے مجھے لائن میں لگنا پڑے گا ۔ ‘‘
ہاں ۔ ۔ انیتا ! میں باہر جا رہا ہوں ۔ ۔ ہاں ہاں یار صرف ناشتہ کرنے کے لئے ۔ ارے یار ۔ اب میں تین دن”
بھوکا تو نہیں رہ سکتا ہوں” ۔
اوکے ۔ اوکے ۔ ۔ صرف ایک گھنٹہ ۔ اس کے بعد آتے ہی تمہیں اطلاع دوں گا ۔ ۔ بائے ۔ ۔ ٹیک کیئر ۔ ‘‘
اف ۔ ۔ ‘‘ میں نے غصے سے پہلو بدلا ۔
ایسا لگ رہا ہے گرل فرینڈ نہیں اس کی اماں جان ہے ۔ اتنا ہولڈ ۔ ۔ ابھی سے یہ حال ہے تو شادی کے بعد کیا”
کرے گی؟بس گلے میں پٹہ ڈالنا رہ گیا ہے ۔ ہونہہ ۔ ۔ کمبخت کہیں کی” ۔ ۔
وہ باہر دفع ہو گیا تو میں نے بھی اپنا ناشتہ بنا یا اور ٹی وی لگا لیا ۔
اوہو ۔ ۔ ‘‘ میں خوشی سے جھومنے لگا ۔ میرا فیورٹ مارننگ شو”
Break fast with the Bhoot ابھی شروع ہی ہوا تھا ۔
میں ایوننگ واک کر کہ گھر میں داخل ہواتو میری نظر اس لڑکے پر پڑی ۔ وہ صوفے پر نیم دراز کوئی ناول پڑھ رہا تھا ۔
آج تقریباً پورا دن گذرگیا تھا ۔ ۔ میں نے اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی تھی ۔
اب جیسے جیسے اندھیرا پھیل رہا تھامیرے اندر کا خوفناک بھوت انگڑائیاں لے رہا تھا ۔ ۔ مجھے اکسا رہا تھا کہ میں اس کو ڈراءوں ۔
ہونہہ بڑا پہلوان سمجھتا ہے خود کو،مجھ سے پنگا لینے چلا ہے ۔ ۔ مجھ سے ۔ ۔ آس پاس کے علاقے میں دوردور تک مجھ سے بڑا ٓسیب زدہ گھر کسی جن یا بھوت کے پاس نہیں ہے ۔
میں تھوڑی دیر اس کے آس پاس ٹہلتا رہا ۔ ۔
کیا کروں ؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا ۔”
اب آپ لوگوں سے کیا چھپانا ۔ ۔ اصل میں اب میں کچھ کچھ تھکنے لگا تھا ۔ برس ہا برس گذر چکے تھے ۔ انسانوں کو ڈراتے اور بھگاتے ہوئے ۔ ۔
آخر ہم بھوت بھی انسان ہوتے ہیں ۔ ۔ اوہ معاف کیجئے گا ۔ ۔ میرا مطلب ہے ۔ ہمارے سینے میں بھی دل ہوتا ہے ۔ اور اس میں جذبات بھی ہوتے ہیں ۔
اوہ ۔ ۔ میں اس طرح کیوں سوچ رہا ہوں ۔ ۔ شاید بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ میرا دل نرم ہوتا جا رہا ہے ۔ ورنہ میں نے
تو ادھر آنے والے لوگوں کو اتنا ڈرایا تھا کہ وہ سالوں تک نہیں بھول پائے ہوں گے ۔ اور دو نوجوانوں کو تو میں نے اتنا زیادہ ڈرایا تھا کہ ان میں سے ایک تو بلکل پاگل ہو گیا تھا ۔ ۔ کئی مہینوں تک ذہنی مریضوں کے اسپتال میں اس کا علاج ہوا تھا ۔ دوسرے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوا تھا ۔ مرتے مرتے بچا تھا ۔ ۔ بے چارہ ۔ ۔
مگر یہ نوجوان ۔ ۔ کیا نام ہے اس کا ہاں ۔ حماد ۔ ۔
خیر اتنی آسانی سے تو اس کو بھی تین دن نہیں گذارنے دوں گا ۔
یہ شادی نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجئے”
“اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘
حماد بڑے لہک کر شعر کی ٹانگ توڑ رہا تھا
تم نے پھر بکواس شروع کر دی ہے “۔ ۔ دوسری طرف سے انیتا نے ناگواری سے کہا ۔”
ایسے تو نہ کہو ۔ ۔ آخر تمہاری محبت میں اتنا کڑا امتحان دے رہا ہوں ۔ حماد نے بڑے پیار سے کہا ۔
شاید وہ بھول گیا تھا کہ کتنی خوفناک جگہ بیٹھا ہوا ہے ۔
لگ رہا ہے اس محل کے متعلق جھوٹی کہانیاں پھیلائی گئی ہیں ۔ ۔ تم تو اتنے سکون سے ہو جیسے گرین پیلس میں”
نہیں تاج محل میں بیٹھے ہوئے ہو” ۔ انیتا حیران ہو رہی تھی ۔
ارے میری ملکہ عالیہ!جب آپ ہم سے مخاطب ہوتی ہیں تو ہر جگہ خود بہ خود تاج محل بن جاتی ہے “۔ ۔ حماد”
ایک دن پیلس میں گذار کر شاید خود کو ہیرو سمجھ رہا تھا ۔
آپ حکم تو کریں یہ غلام گرین پیلس کو آپ کے نام لکھ ڈالے گا” ۔ ۔ “
اچھا سالے ۔ ۔ مجنوں کی اولاد “۔ ۔ میں نے دانت پیسے ۔ ۔”
“ابھی بتاتا ہوں تجھے ۔ ۔ تیرے باپ نے بنوایا تھا یہ گرین پیلس ۔ ۔”
میں اپنے چھت سے لگے ہوئے بیڈ پر بیٹھاکب سے اس کی لمبی لمبی سنے جا رہا تھا ۔
میں نے جلدی سے اپنی کافی کا آخری گھونٹ پیا اور خالی مگ تاک کر حماد کو دے مارا ۔ ۔
’’آ ۔ ۔ آ ۔ ۔ آ‘‘حماد نے چیخ بھی بڑی ہی لمبی ماری تھی ۔
موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا ۔ ۔
امی “۔ ۔ ‘‘ اس نے چیخ کر کشن سے منہ چھپا لیا ۔”
کیا ہوا حماد؟ کیا ہوا ہے ۔ ۔ ؟‘‘دوسری طرف سے انیتا کی آواز مسلسل آرہی تھی ۔
جا اب لکھ ۔ ۔ گرین پیلس ۔ ۔ اپنی پھپھو انیتا کے نام” ۔ ۔”
میں نے نیچے جھانکا ۔ ۔ ایک دم میری ہنسی نکل گئی ۔
ماتھے پر بڑی سی بینڈیج باندھے ،حماد صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔
اس کی ناک سوج کر لال ہو رہی تھی ۔ جیسے سرکس کا کلاءون ہو ۔
چل گیا پتہ ۔ ۔ مل گیا مجھ سے پنگا لینے کا انجام” ۔ ۔ میں مسکرایا ۔”
وہ بڑا ہی خوفزدہ لگ رہا تھا ۔ مسلسل ڈری ہوئی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا ۔
اس کے فون کی گھنٹی بجی تو بری طرح اچھل گیا ۔
ہیلوامی! امی “۔ ۔ وہ رونے والا ہو گیا ۔”
’’جی امی ۔ ۔ میں ٹھیک ۔ ۔ ہاں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ‘‘ اس نے بیٹھے ہوئے گلے سے کہا ۔
’’امی آج دو دن تو ہو گئے ہیں بس ایک دن باقی ہے ۔ ‘‘
وہ امی انیتا کی شرط ہے “۔ ۔ حماد نے ڈری ہوئی نظروں سے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔”
کیا”؟امی کیسے بھاڑ میں ڈال دوں انیتا اور اس کی شرط کو؟”
آپ کو تو پتہ ہے نہ میں انیتا سے ۔ ۔ کتنا زیادہ ۔ ۔ وہ شرما سا گیا ۔
اس کمینی کا کیا جائے گا بیٹا اگر تمہیں کوئی نقصان پہنچا تو؟تم میرے اکلوتے بیٹے ہو بیٹا میرا واحد سہارا ہو ۔ پلیز”
بیٹا تم واپس آ جاءو ابھی اسی وقت ۔ ۔ اگر وہ تم سے سنجیدہ ہو گی تو تم سے شادی کر لے گی ۔ ۔ میرے بچے ۔ ۔ میری جان “۔ ۔ \اس کی امی اس سے التجا کر رہی تھیں ۔
اوہ ‘‘مجھے افسوس سا ہوا۔ ۔”
بے چاری آنٹی” ۔ ۔ میں نے سوچا ۔”
مگر میں بھی بھلا کیا کر سکتا ہوں جب یہ لڑکا خود ہی کنویں میں چھلانگ لگانا چاہ رہا ہے ۔ ۔ میں اپنے اصولوں کے آگے کسی کی نہیں سنوں گا ۔ میں اس کو آرام سے واپس نہیں جانے دوں گا ۔ میں اس کو مزہ چکھا کر رہوں گا ۔ میں اس کو اپنے گھر میں گھسنے کی سزا ضرور دوں گا ۔
سوری آنٹی ۔ ۔ ۔
جب سے رات کو میرا پسندیدہ پروگرام
Live Chat with Churails
دوبارہ شروع ہوا تھامیری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔
میں اس شو کے دوران کوئی دخل اندازی برداشت نہیں کر سکتا تھامگر ان منحوسوں کی بحث نے میرا سارا شو غارت کر دیا ۔
نہیں حماد ہر گز نہیں” ۔ ۔ انیتا انتہائی ضدی اور خود پسند تھی ۔”
“اگر تین دن پورے نہیں کئے تو میری طرف سے انکار سمجھنا ۔ ۔ بلکل ۔ ۔”
مگر انیتا! امی بہت پریشان ہو رہی ہیں ۔ وہ ایک منٹ بھی مزید مجھے یہاں نہیں ٹہرنے دے رہی ہیں ۔ ۔ حماد التجا کر رہا تھا ۔
اف “۔ ۔ ایک تو تمہاری امی ۔ ۔ انیتا نے دانت پیسے ۔”
ان کا بس چلے تو تمہیں اپنی گود میں بٹھالیں ۔ ۔ آخر وہ ہمارے بیچ میں کیوں دخل اندازی کر رہی ہیں ؟ اورتم کو”
بھی کیا ضرورت تھی ان کو پوری رام کہانی سنانے کی؟‘‘انیتا جھلا رہی تھا ۔
میں اپنی امی سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا” ۔ حماد نے کہا”
اور اگر میں تین دن کے بعد باہر نہ آ سکا تو پھر؟میری امی تو میرا راستہ دیکھتی رہ جائیں گی” ۔ ۔ اس کی آواز بھرا گئی
۔
حماد !سچی محبت تو تم کو صرف اپنی امی سے ہے ۔ ادھر تم امی کہتے ہو ادھر تمہاری آواز بھرا جا تی ہے “۔”
انیتابری طرح جل گئی ۔
اور مجھے تم سے کم محبت ہے ۔ ؟تم شک کر رہی ہو “۔ ابھی بھی–حماد حیران رہ گیا ۔”
ہاں ہے شک” ۔ ۔ اگر تم کو مجھے یقن دلانا ہے تو تین دن پورے اس محل میں گذارنے پڑیں گے ۔ ۔”
بڑی ڈھیٹ لڑکی ہے ۔ ۔ میں حیران ہو رہا تھا ۔
میں نے جھانکا حماد ویڈیو کال پر بات کرہا تھا ۔
مجھے شرارت سوجھی ۔ ۔ دوسری طرف انیتا مجھے نظر آرہی تھی ۔ ۔ میں نے صرف چند سیکنڈ کو حماد کے پیچھے سے جھانکا اور اپنی جھلک انیتا کو دکھا دی ۔ ۔ اس پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ ۔
“حماد تمہارے پیچھے ۔ ۔ کیا ہے ۔ ۔ بھوت ۔ ۔ بھوت ۔ ۔”
میں نے اسے آنکھ مار دی ۔ ۔ وہ چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی ۔
الّو کی ۔ ۔ ‘‘ میں نے گالی اپنے منہ میں روک لی ۔”
’’اب چلا پتہ ۔ ۔ ہونہہ ۔ ۔ تین دن پورے کرو اس بھوت محل میں ۔ ۔ ‘‘
یہ لڑکی ۔ ۔ یہ لڑکی ۔ ۔ کون ہے؟
میں مستقل یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
’’کہاں دیکھا تھا میں نے اسے؟‘‘
جب سے رات کو فون پر انیتا کو دیکھا تھا،مجھے اس کی شکل جانی پہچانی لگ رہی تھی ۔
اور پھر ۔ ۔ اچانک ۔ ۔ مجھے یاد آ گیا ۔
“انیتا کو تو میں پہلے دیکھ چکا ہوں ۔ ۔ یعنی اس کی تصویر کو ۔ ۔”
یہ تو وہ ہی لڑکی ہے جس کی شرط پوری کرنے کے لئے پہلے بھی دو نوجوان میرے پیلس میں رکنے آئے تھے ۔ جن کو میں نے ڈرا کر پاگل کر دیا تھا ۔ ‘‘
اوہو ۔ ۔ اس لڑکی نے تو کھیل ہی بنا رکھا تھا ۔ یہ تو سچ مچ اپنے عاشقوں کو پاگل کر دیتی تھی اور ۔ ۔ اور وہ بھی میرے ذریعے سے ۔ ۔
اف ۔ ۔ کتنی بری لڑکی ہے یہ انیتا ۔ ۔ کتنا غرور ہے اس کو اپنے حسن پر ۔ ۔ میں اس کو سزا دوں گا ۔ ۔ بہت بری سزا ۔ ۔ مگر کیا؟
آخر کیا کروں” ؟”
اور آخر مجھے ترکیب سوجھ ہی گئی ۔
حماد بہت خوش تھا ۔
اس نے پورے تین دن اور تین راتیں اس بھوت محل میں گذار لی تھیں ۔ اور اب وہ اپنا سامان پیک کر رہا تھا ۔
گنگناتے ہوئے ۔ ۔ ۔
بھوت نے اسے بس تھوڑا سا ڈرایا تھا اور بس تھوڑی سی ہی چوٹ لگی تھی ۔ ۔
اس نے اپنے ماتھے پر بندھی ہوئی پٹی کو چھوا ۔
کوئی بات نہیں ۔ ۔ محبت میں تو بڑے بڑے زخم کھانے پڑ جاتے ہیں ۔ ۔ “وہ مسکرانے لگا”
حماد نے اپنا سارا سامان پیک کر لیا تھا ۔ ۔ اس نے کوٹ اور جوتے پہنے اور محل سے باہر جانے لگا ۔
باہر شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے ۔ ۔ دور تک پھیلے درخت سر جھکائے ہوئے سخت اداس محسوس ہور ہے تھے ۔ ہر طرف سناٹا اور اندھیرا تھا ۔
حمادخوش تھا بہت خوش ۔ ۔
انیتا کے ساتھ زندگی گذارنے کے سپنے دیکھے جا رہا تھا ۔ گنگنائے جا رہا تھا ۔ ۔
ایک عجیب سا گانا ۔ ۔ بہت ہی خوفناک دھن والا ۔ ۔ جیسے کوئی بدروح بین کر رہی ہو ۔ ۔
وہ گنگناتے ہوئے محل سے باہر نکل گیا ۔ ۔
میں ہنسنے لگا” ۔ ۔ گڈ بائے حماد “
میں نے حماد کو کچھ نہیں کہا ۔ ۔ میرا مطلب ہے زیادہ کچھ نہیں ۔ ۔
میں نے اس کو کل رات ۔ ۔ آدھی رات کو سوتے میں ڈرایا دیا تھا ۔ ۔ بس تھوڑ اسا ۔ ۔
اس کو تو پتہ بھی نہیں چل سکا کہ اسکے دماغ کے ساتھ کیا ہو چکا ہے ۔
اب وہ واپس جائے گا اور انیتا سے شادی کرے گا ۔
اس چڑیل ،منحوس انیتا سے ۔ ۔ اور پھر کبھی کبھی ۔ ۔
صرف چاند کی ہرچودھویں رات کو حماد کو ایک دورہ پڑا کرے گا ۔ ۔ اور وہ اس رات کو ایک بھوت بن جایا کرے گا ۔ ۔
اور صرف اپنی بیوی انیتا کو ڈرائے گا ۔ ۔ لوگوں کو پاگل کر دینے والی انیتا کو اتنا ستائے گا کہ اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے ۔
اس کا آسمان پر پہنچا ہوا دماغ درست ہو جائے گا ۔ ۔
میں تصور کر کے زور زور سے ہنسنے لگا ۔ ۔
بائے بائے حماد ۔ ۔ گڈ لک “۔”
Read Also:
Best one.